1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے متنازعہ فیصلے

29 اکتوبر 2012

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے سلیکشن کمیٹی ختم کرکے تمام اختیارات کوچ کو سونپے جانے کے فیصلے پر سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔

تصویر: Reuters

انیس سو اڑسٹھ کے میکسیکو اولمپکس میں پاکستان کو طلائی تمغہ جتوانے والے کپتان ڈاکٹر طارق عزیز کا کہنا تھا کہ کوچ کی کھلاڑیوں کے بارے میں سوچ غیر منصفانہ ہو سکتی ہے مگر سلیکشن کمیٹی غیرجانبدار رہ کر معاملات پر نظر رکھتی تھی اس لیے اس کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر طارق عزیز نے ریڈیو دوئچے ویلے کو بتایا کہ کوچ کو جن مغربی ممالک میں سلیکشن کا اختیار دیا جاتا ہے وہاں وہ نتائج کا بھی مکمل ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اولمپکس میں ساتویں پوزیشن کی تو کسی کو پرواہ نہیں اور سلیکشن کمیٹی کو ختم کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر طارق عزیز کے بقول پاکستان میں ہمیشہ سلیکشن کمیٹی کی ضرورت رہی ہے کیونکہ ٹیم کے ساتھ مہینوں رہنے سے کوچ کی پسند ناپسند ہو سکتی ہے مگر سلیکشن کمیٹی غیر جانبدار ہوتی ہے اور اس لیے اسکو قائم رہنا چاہیے تھا۔

طارق عزیز کی ہی طرح لیفٹ فُل بیک کے طور پر شہرت پانے والے ایک اور سابق اولمپئین اور پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کوچ نوید عالم نے بھی سلیکشن کمیٹی کو ختم کرنے کے فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، ’’حنیف خان اور اختر رسول کو یہ اختیارات سونپے جانے سے اب کرکٹ کی طرح پاکستان ہاکی کی سلیکشن میں بھی پنجاب اور سندھ کی سیاست شروع ہوجائے گی۔

پاکستان ہاکی ٹیم کے مینجر خواجہ جنید اور کوچ شاہد علی خان کوسبکدوش کر دیا گیا ہےتصویر: DW

نوید عالم کے مطابق ہاکی فیڈریشن کا یہ فیصلہ ان کی نئی سیاسی چال ہے۔ لندن اولمپکس میں ساتویں پوزیشن پر اکتفا کرنے والی پاکستان ہاکی ٹیم کے مینجر خواجہ جنید اور کوچ شاہد علی خان کوسبکدوش کر دیا گیا ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ غیر فعال ہونے کے باوجود سابق کپتان اختر رسول کو ٹیم کا ہیڈ کوچ برقرار رکھا گیا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ بھی کہ سلیکشن کمیٹی ختم کر کے چیف سلیکٹر حنیف خان کو ہی کوچ مقرر کر دیا گیا ہے۔

پی ایچ ایف کے اس فیصلے پر سابق کپتان محمد ثقلین نے کہا کہ فیڈریشن نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختر رسول اور حنیف خان عظیم کھلاڑی تھے مگر دونوں عصر حاضر کی کوچنگ سے ناواقف ہیں۔ اختر رسول نئے کھلاڑیوں سے باکل ناواقف ہیں اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ وہ عملی طور پر گراونڈ پر کھلاڑیوں کو کچھ کرکے نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے یہ اقدام تباہ کن ثابت ہو گا۔
نوید عالم کے مطابق اختر رسول کیونکہ خود اپنا عہدہ چھوڑنے پر تیار نہیں تھے اس لیے اب چمئنز ٹرافی کی ناکامی کا ملبہ ان پر ڈال کر دسمبر کے بعد ٹیم طاہر زمان کے سپرد کر دی جائے گی۔

سابق کپتان وسیم احمد جمعہ سے لاہور میں شروع ہونے والے تربیتی کیمپ کے لیے ٹیم انتظامیہ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیںتصویر: DW

غور طلب بات یہ ہے کہ انیس سو چھیاسی کے لندن عالمی کپ کے بعد سے ہر ٹورنامنٹ ہارنے پر اگلے اولمپکس یا عالمی کپ کو ہدف قرار دینا پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ریت بن چکی ہے۔ موجودہ فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء نے بھی چار برس پہلے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اولمپکس دو ہزار بارہ کو اپنا ہدف قرار دیا تھا مگر اب ٹیم کے ہیڈ کوچ اختر رسول دو ہزار چودہ ورلڈ کپ کی تاریخ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں سابق کپتان ڈاکٹر طارق عزیزکہتے ہیں کہ سن 2014ء کے بعد یہی لوگ سن 2016ء کے اولمپکس کی تاریخ دے رہے ہون گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایچ ایف والے بادشاہ لوگ ہیں اسلیے جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
طارق عزیز کے مطابق، ’’جب کوچز کی تقرریوں میں دوستیاں نبھائی جائیں۔ مخلصانہ کوششوں کا فقدان ہو تو پھر حکام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے‘‘۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ٹیم انتظامیہ میں تبدیلیوں کے بعد اب دسمبر میں ہونیوالی میلبورن چمپئنز ٹرافی کے لیے کپتان سہیل عباس اور سینئر فاروڈ ریحان بٹ کو بھی ٹیم سے ڈراپ کر دیا ہے۔ البتہ لندن اولمپکس کھیلنے سے محروم رہنے والے کاشف شاہ کی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے جبکہ دو سابق کپتان وسیم احمد اور شکیل عباسی بھی جمعہ سے لاہور میں شروع ہونے والے تربیتی کیمپ کے لیے ٹیم انتظامیہ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت :امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں