عمران خان نے کراچی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی کوشش نہ کی جائے۔
اشتہار
کراچی میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مزار سے متصل ''باغ جناح'' میں پاکستان تحریک انصاف نے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ اس جلسے کو پی ٹی آئی کی جانب سے فقیدالمثال اور تاریخی قرار دیا گیا ہے۔
'اب مقدمے بنائے جائیں گے'
سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کراچی میں جلسے سے اپنے خطاب میں الیکشن کرانے کا مطالبہ دوہراتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی۔ ان کے بقول اگر ان کے اور پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس بنائے گئے تو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا، ''اپنی قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں، میں انسانیت کے ساتھ ہوں۔ میرے لیڈر رحمت اللعالمین ہیں۔ دوستی سب سے کرتا ہوں غلامی کسی کی نہیں کر سکتا۔ ایک میر جعفر کو ہم پر مسلط کیا ہے اور یہ قوم کو غلام بنانے کی سازش ہوئی ہے۔''
'اگر پھر آ گئے تو اور تباہی ہو گی'
ایم کیوایم پاکستان کی ڈپٹی کنوینر سینیٹر نسرین جلیل نے ڈوئچےویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جمہوری اقدار کو پامال کر رہے ہیں، جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا وہ ان کے جارحانہ رویے اور آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے، ''اگر پی ٹی آئی اسی انداز سے جیت کر دوبارہ واپس آ گئی تو ملک میں اور تباہی ہو گی۔ عمران خان نے کراچی میں جلسہ ضرور کر لیا لیکن کراچی کے شہری سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں وہ جاگیردارانہ سوچ کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔''
ووٹ محفوظ ہیں
نسرین جلیل نے مزید کہا کہ ایم کیوایم کو ایسے جلسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے بقول امید ہے کہ آئندہ انتخابات مں ایم کیو ایم اس شہر کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے مزید سیٹیں حاصل کرے گی۔ نسرین جلیل نے کہا کہ بڑے جلسوں سے کچھ نہیں ہوتا وقتی طور پر جو کچھ عمران خان کر رہے ہیں وہ ووٹر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ''عمران خان نے کراچی کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہی ووٹ پر یہ حکومت کھڑی ہوئی تھی مگر اپنی اہم اتحادی ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی اور عمران خان نے ہمیشہ نظر انداز کیا، ہمارے ووٹ محفوظ ہیں۔''
کم سیٹیں لینے والے حکومت میں ہیں، ارسلان تاج گھمن
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان اور رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج گھمن نے ڈوئچےویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملکی سیاست کا اہم موڑ ہے۔ ان کے بقول اس سے بڑی آمریت کیا ہو گی کہ سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت پی ٹی آئی باہر اور کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ملک کی حکمرانی کر رہی ہے۔ ارسلان تاج نے کہا، ''ہم ملک بھر میں نہ صرف مظاہرے کریں گے بلکہ ہم آخری حد تک جائیں گے۔ میلینئم مال والے جلسے میں چیئرمین عمران خان کے بغیر بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ ممبر صوبائی اسمبلی نے مزید کہا کہ ان کی جماعت کی حکمت عملی یہ ہے کہ نئے انتخابات کی طرف جلد از جلد جائیں، ''عمران خان بھاری مینڈیٹ لے کر دوبارہ برسراقتدار آئیں گے۔''
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
'اسٹیبلشمںٹ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی'
کراچی جلسے سے متعلق مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کراچی کا فیصلہ انتہائی سوچ سمجھ کر کرے گی کیونکہ کراچی کے لیے متحدہ قومی موومنٹ جیسی جماعت ہی چاہیے ، جو اس شہر کی باریکیاں جانتی ہو۔ کچھ تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے ساتھ اس وقت اپرمڈل کلاس ہے اور ان کے دور کرکٹ کے کارناموں کی وجہ سے بیشتر لوگ عمران خان کی ابھی تک حمایت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین کے دوبارہ متحرک ہونے اور کراچی میں موجود ان کے کارکنوں اور پرانی قیادت کے فعال ہونے کی بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
اشتہار
جلسے منظم سسٹم بن چکے ہیں، شاہد جتوئی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شاہد جتوئی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے خواہ وہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور جماعت اس میں عوام کی کوئی بھلائی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح اسٹاک معیشت کا پیرامیٹر نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جلسے جلوس سیاست کا پیرامیٹر نہیں ہوتے۔ شاہد جتوئی کے مطابق اب جلسوں کا انعقاد باقاعدہ ایک منظم سسٹم بن چکا ہے اور اس سسٹم میں ٹھیکیدار پیدا ہو چکے ہیں، ''اب دیکھا یہ جاتا ہے کہ کتنا پیشہ خرچ کیا جائے اور ایونٹ کو کیسے چار چاند لگائے جائیں۔ اب سیاسی جلسے منعقد کرانے کے لیے ادارے بن چکے ہیں لیکن کسی حد تک پبلک سپورٹ بھی ہوتی ہے۔''
سینیئر صحافی نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف یہی رہا کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کے باعث کام نہیں کر سکی جبکہ کراچی کے لیے اعلان کیا جانے والا گیارہ سو ارب کا پیکج کہاں ہے؟
پی ٹی آئی کی کراچی میں تیاریاں
واضح رہے کہ جلسے سے چند روز قبل ہی پی ٹی آئی نے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں بالخصوص مزار قائد، نمائش چورنگی کے اطراف میں وال چاکنگ اور بینرز آویزاں کیے گئے تھے، جن پر (غلامی یا آزادی۔۔۔۔قوم کی آواز۔۔ فوری انتخابات) تحریر تھا۔ ذرائع کے مطابق کراچی کے جلسے میں مقامی افراد کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی، جن کا تعلق کراچی سے نہیں تھا لیکن ان سب کا جوش وخروش قابل دید رہا۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی جلسے میں موجودہ تھی، جو حکومت کے خلاف اور عمران خان کے حق میں نعرے لگاتی رہی۔ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں نے ہاتھ میں قومی پرچم اور پی ٹی آئی کے جھنڈے تھامے ہوئے تھے۔
پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے