1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغانستان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے نیٹو کی کوششیں

30 اگست 2011

عالم محمد اس خطے کا سروے کر رہا ہے، جس کی حفاظت وہ گزشتہ چار سال سے کر رہا ہے۔ وہ پہاڑی پر کھڑا ہو کر اس جگہ کو دیکھ رہا ہے جسے امریکہ دنیا کی سب سے خطرناک جگہ کہتا ہے۔

تصویر: AP

افغانستان۔ پاکستان  کی سرحد غیر محفوظ، طویل اور غیر قانونی سرگرمیوں سے پُر ہے، وہاں طالبان سرحد کی دونوں جانب اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور منشیات لاتے لے جاتے رہتے ہیں۔ عالم محمد کا کہنا ہے: ’’ہمارے لیے بہت ہی مشکل وقت ہے۔‘‘

پاک افغان دوستی بابتصویر: picture-alliance / dpa

وہ بیس ہزار حفاظتی گارڈز میں سے ایک ہے جو افغانستان کی 2640 کلومیڑ طویل مشرقی سرحد پر فرائض انجام دیتے ہیں۔  افغانستان اور پاکستان کی اس باہمی سرحد پر تقسیم کے نشان قدرے ناقص ہے اور وہاں نیٹو نئے آلات اور تربیت کے ذریعے سکیورٹی بڑھا رہی ہے تاہم سرحدی گارڈز اور افغان حکام کو یہ فکر ہے کہ طویل جنگ لڑنے کے لیے یہ اقدامات کافی نہیں۔

عالم محمد کا کہنا ہے کہ انہیں مسلسل تین راتیں طالبان کے حملوں کا سامنا رہا ہے جو جنوبی صوبے قندھار میں اسپن بولدک کے مقام پر سرحد پار کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والی جیکٹوں اور دھماکہ خیز مواد سے لدے ٹرک کو سرحد پار کرنے کی کوشش میں دیکھا گیا۔ اس نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستانی سرحد یہاں تین کلو میٹر دور ہے۔

طورخم کے بعد اسپن بولدک سب سے مصروف ترین شاہراہ بن چکی ہے۔ امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ پاک افغان سرحد کے نزدیک دیہات بظاہر تو بہت پرسکون نظر آتے ہیں لیکن عسکریت پسندوں نے وہاں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔

32 سالہ ذبیح اللہ جو ابھی ہفتے کو نیٹو کے آٹھ ہفتے کے تربیتی کورس سے فارغ  ہوئے ہیں، نے بتایا کہ القاعدہ اور طالبان کے متعدد افراد کسی بھی وقت سامنے آ جاتے ہیں، لیکن یہاں حفاظت کی ذمہ داری گارڈز کی ہے۔

نیٹو فورستصویر: AP

پاکستان اور افغانستان اس حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقے میں طالبان کے ایک حملے میں چھتیس افراد ہلاک ہوئے، جس کے ردِ عمل میں پاکستان نے کہا کہ ایسا سرحد پر نیٹو اور افغان فوج کی محدود تعیناتی کی وجہ سے ہوا۔

رپورٹ: سائرہ ذوالفقار

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں