پاک، افغان اور امریکہ مذاکرات
27 فروری 2009مذاکرات کے بارے ميں کسی قسم کی تفصيلات نہيں بتائی گئيں تاہم افغان وزير خارجہ رنگین اسپانتا نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات ميں ايک اچھی خبر يہ ہے کہ پاکستان کی نئی سول حکومت اور ہماری حکومت کے درميان اعتماد ہے، يہ ايک نئی تبديلی ہے۔
اسپانتا نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ قريبی تعاون کيا جائے گا اور يہ بات امريکہ کو بھی بتا دی گئی ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ دنيا کے استحکام کو سب سے بڑا خطرہ افغانستان يا عراق سے نہيں بلکہ پاکستان سے لاحق ہے کيوں کہ اس کی آبادی زيادہ ہے اور اس کے پاس ايٹمی ہتھيار ہيں۔ افغان وزيرخارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان ميں حکومت ناکام ہوتی ہے تو اس سے سب کو خاص طور سے وسط ايشياء کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہو گا۔
پاکستان کے بارے ميں امريکيوں کو بھی فکر ہے۔ رچرڈ ہال بروک نے تنقيد کی ہے کہ جنگ بندی کے بدلے سوات ميں طالبان کو شريعت کے نفاذ کی پيشکش کی گئی ہے۔ تاہم گذشتہ عرصے کے دوران افغان حکومت اور امريکيوں کے تعلقات ميں بھی کشيدگی پيدا ہوئی ہے۔ امريکی صدر اوباما نے افغان صدر پر تنقيد کی ہے کہ وہ ملک کی تعمير نو اور سلامتی کے لئے بہت کم کوشش کررہے ہيں۔ دوسری طرف افغان صدر حامد کرزائی نے امريکی فوجی حملوں کے دوران بڑی تعداد ميں شہريوں کی ہلاکت پر نکتہ چينی کی ہے۔