پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘
شادی خان سیف، کابل
17 دسمبر 2017
پاکستان اور افغانستان کے مابین حکومتی سطح پر موجود سردمہری دور کرنے اور دوستانه تعلقات کے فروغ کے لیے ’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کے حالیه سلسلے میں ایک ماه کے دوران دو وفود اسلام آباد سے کابل کا دوره کر چکے ہیں۔
اشتہار
’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘ کا بنیادی مقصد رابطوں کو فروغ دینا، عوام کے مابین رابطے بڑھانا اور حکومتوں کو مثبت اور عملی اقدامات کی جانب راغب کرنا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان سے ایک وفد نے رکن قومی اسمبلی شازیه مری کی قیادت میں آج کابل کا دوره مکمل کيا۔ اس وفد مختلف جماعتوں سے وابسته ارکان پارلیمان، تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل تهے۔
افغان حکومت کے چیف ایگزیکیٹو عبدالله عبدالله نے اتوار کو اپنے دفتر میں پاکستان سے آئے مہمانوں کی میزبانی کے فرائض نبهائے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا که افغانستان ہمسایه ممالک کے ساتھ دیرینه اور دوستانه تعلقات کا خواہاں ہے، جو اچهے تعلقات کے بنیادی اصول، یعنی متقابل احترام اور مثبت تعاون پر مبنی ہو۔ ان کا کہنا تھا، ’’دونوں اقوام کے مابین تعاون کا سچا جذبه موجود ہے، اور تعلقات میں بہتری کی خاطر اس جذبے سے کام لیا جانا چاہیے۔ اعتماد سازی کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے که دہشت گردی کے خلاف سچی جنگ لڑی جائے اور عسکریت پسندوں کے ٹهکانے ختم کرنے کے لیے بنیادی اقدامات اٹهائے جائیں۔‘‘
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
شازیه مری کی قیادت میں افغانستان کا دوره کرنے والے وفد میں تاجر برادری کے نمائندوں کی موجودگی اس بات کا اشاره ہے که یه ٹریک ٹو ڈپلومیسی محض سیاسی مسائل سے متعلق نہیں ہے بلکه تجارت بهی ایک اہم محور ہے۔ پاکستانی وفد کی سربراه شازیه مری نے افغان پارلیمان کے دورے کے موقع پر تجارت کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آج عبدالله عبدالله سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے واضح کیا که مسائل کے حل کے لیے بات چیت ہونی چاہیے۔
سال 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے بعد سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں خاصے نشیب و فراز نمایاں رہے۔ افغانستان میں بعض مبصرین افغان صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے سن 2014 کے اواخر میں پاکستان کو دوستی کی پیشکش کے ردِ عمل میں پاکستان کی جانب سے مناسب جواب نه ملنے کو ایک اہم موقعے کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔
عالمی بینک میں اقتصادی امور کے مشیر کی حیثیت سے کام کا تجربه رکهنے والے افغان صدر غنی کی حکومت افغان معیشت کی ساخت کو مکمل طور پر بدلنے کی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے کراچی پورٹ پر انحصار ختم کرنے اور وسطی ایشیا، ایران، بهارت اور ترکی سے تجارت کے فروغ کی ان کی پالیسیوں کے باعث دو سال کے اندر ہی پاکستان سے برآمدات مین ایک ارب ڈالر سے زائد کمی دیکهی جارہی ہے۔
پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی
02:29
پاکستان افغانستان مشترکه چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر خان جان الکوزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که پاکستان سے برآمدات 2.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 1.4 ارب ڈالر تک آچکی ہیں، اور اس میں مزید کمی متوقع ہے۔ پاکستان سے کئی شکایتوں اور گلے شکوے رکهنے کے باوجود الکوزئی کا ماننا ہے که اگر خلوص نیت موجود ہو تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ الکوزئی کے مطابق ہمسایہ ممالک کے مابین نزدیکی رابطوں سمیت دو طرفه تجارت میں فروغ کے لیے کئی امکانات موجود ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے فروغ میں جرمن سماجی اداره ’فریڈرش ایبرٹ شٹفٹنگ‘ اہم کردار نبها رہا ہے۔ رواں ماه کے اوائل میں اس ادارے کے تعاون سے پاکستان کے چنیده اور تجربه کار صحافیوں کے ایک گروپ نے بهی کابل کا دوره کیا تها۔
حالیه دورے کے منتظم، سینیئر صحافی اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که پاک افغان جوائٹ کمیٹی نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے که ٹرانزٹ اور دو طرفه تجارت سمیت تعلیم، ثقافت اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کریں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستانی حکام کی طرف سے خار دار باڑ لگانے کے تنازعے کے باعث یہ بارڈر کراسنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے سرحد پار آمد و رفت اور مال برداری بھی معطل ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
سرحد کی طرف رواں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی مال برداری کا ایک بہت بڑا حصہ طورخم کی سرحد کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ اس تصویر میں بہت سے ٹرک اور ٹرالر طورخم کی طرف جاتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایسی ہزاروں مال بردار گاڑیاں پہلے ہی کئی دنوں سے اس شاہراہ پر بارڈر دوبارہ کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
باب خیبر
طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کی طرف سے سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں خار دار باڑ لگانے کے منصوبے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے اسی ہفتے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی افغان پولیس کے کمانڈر سے بات چیت بھی ہوئی لیکن اطرف کے مابین کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
تصویر: DW/D.Baber
بندش کا مطلب تجارتی جمود
پاکستان افغان سرحد کی بندش سے متعلق تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان ڈارئیوروں کو بھی جو پچھلے کئی دنوں سے انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
تصویر: DW/D.Baber
بارڈر کھلنے کا انتظار
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث اس سرحدی گزر گاہ کو جانے والی شاہراہ پر دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کئی طرح کے تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے ڈرائیور اس انتظار میں ہیں کہ بارڈر کھلے تو وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
تصویر: DW/D.Baber
کراچی سے کابل تک پریشانی
بارڈر کی بندش کے نتیجے میں ایک طرف اگر شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کراچی سے لے کر افغانستان میں کابل تک ہزاروں تاجر بھی اس لیے پریشان ہیں کہ یہ صورت حال اب تک ان کے لیے کروڑوں کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
کئی دنوں سے بھوکے ڈرائیور
سرحد کی بندش کے باعث مال بردار گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے اور جہاں وہ ہیں، وہاں انہیں معمول کی خوراک دستیاب نہیں۔ ایسے میں انہیں سڑک کنارے بیچی جانے والی اشیاء اور کچھ پھل وغیرہ خرید کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں پیاس
مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس ان کی گاڑیوں میں عام طور پر اشیائے خوراک یا مشروبات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں شدید گرمی میں اگر ممکن ہو سکے تو وہ اپنی پیاس چائے پی کر بجھا لیتے ہیں۔ اس تصویر میں اپنے ٹرک کے نیچے بیٹھے دو افراد اپنے لیے چائے بنا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں ٹرک کا سایہ بھی غنیمت
پاکستان سے روزانہ بے شمار ٹرک اور ٹرالر تجارتی اور تعمیراتی سامان کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کو خدشہ ہے کہ طورخم کی سرحد کی بندش اب دنوں سے نکل کر ہفتوں کی بات بن سکتی ہے۔ اس تصویر میں محض انتظار کرنے پر مجبور ایک ٹرک ڈرائیور اور اس کا ساتھی دوپہر کی گرمی میں سستانے کے لیے اپنے ٹرک کے نیچے زمین پر سو رہے ہیں۔