پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ آج بروز بدھ پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں چار پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ اس واقع میں مزید چھ فوجی زخمی ہوگئے۔
اشتہار
پاکستانی فوج کے متاثرہ اہلکار بلوچستان کے ضلع ژوب میں افغانستان کے ساتھ منسلک سرحد پر باڑ لگانے کا کام کر رہے تھے۔ ژوب کی سرحد افغان صوبے پکتیکا سے ملتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان حکام نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ پچیس سو کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگائی جارہی ہے تاکہ ممکنہ طور پر عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ تاہم افغانستان اس عمل کی تائید نہیں کرتا۔ کابل حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے کئی خاندان تقسیم ہوجائیں گے اور انہیں ایک دوسرے سے ملاقات کرنے میں مشکلات درپیش آئیں گی۔
بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی کے بیس سال
افغان طالبان نے بیس سال قبل وادی بامیان میں مہاتما بدھ کے قدیمی مجسمے اڑا دیے تھے۔ اس وقت دنیا کے کئی ملکوں نے ان سے ایسا نہ کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن طالبان نے کسی کی ایک نہ سنی اور بارود سے یہ مجسمے تباہ کردیے۔
تصویر: Jean-Claude Chapon/AFP/Getty Images
بدھ مت تہذیب کا مرکز
افغانستان کی وادی بامیان میں یہ مجسمے جنوبی ایشیا اور چین کے درمیان تاریخی تجارتی روٹ پر تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ کابل سے شمال مغرب کی سمت قریب دو سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں بامیان وادی میں ہزاروں بدھ راہب رہا کرتے تھے۔
تصویر: Noor Azizi/XinHua/picture alliance
راہب ماہر تعمیرات بن گئے
بدھ راہبوں کے ساتھ ان کا آرٹ اور ثقافت بھی افغان پہاڑی علاقے تک پہنچا۔ ان راہبوں نے کئی مقامات پر سرخ پتھر والی غاروں کو تعمیر کیا۔ مہاتما بدھ کے مجسمے بھی ایسے ہے سرخ پتھر سے تخلیق کیے گئے تھے۔
ساتویں صدی عیسوی میں چینی سیاح اور زائر شوان زانگ بھارت کا سفر مکمل کر کے واپس چین پہنچے۔ اس سفر کے دوران انہیں بامیان سے گزرنے کا موقع ملا۔ ان کے مطابق اس وادی میں درجنوں عبادت خانے اور ہزاروں راہب تھے۔ وہاں قائم مہاتما بدھ کا مجسمہ پچاس میٹر اونچا اور سنہرا تھا۔
تصویر: ZUMA Wire/imago images
تعمیر کے مختلف رنگ
بامیان کے مجسمے کو "بدھ دیپم کار" یا روشنی دینے والا کہا جاتا تھا۔ مؤرخین کے مطابق یہ مجسمہ مختلف تعمیراتی رنگوں کا عکاس تھا۔ بدھ آرٹ کے ساتھ ساتھ یہ یونانی روایت کا حامل بھی تھا۔
تصویر: MAXPPP/Kyodo/picture alliance
سیاحت کا مرکز اور جنگ کا میدان
افغانستان میں اسلام کی آمد کے بعد ایک ہزار سال تک یہ مجسمہ قائم و دائم رہا۔ سن 1979 میں سوویت فوج کشی تک یہ سیاحوں کا ایک پسندیدہ مقام تھا۔ بعد کے عرصے میں مجسمے کے اردگرد کی غاروں کو اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور یہاں غیر ملکی افواج اور مقامی جنگجوؤں کے درمیان زبردست لڑائیاں ہوئیں۔
تصویر: Massoud Hossaini/AP Photo/picture alliance
طالبان کا غضب
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد مارچ 2001 میں انہوں نے اس مجسمے کی تباہی کی ٹھانی۔ بامیان کے اس مقام پر عبادت نہیں ہوتی تھی اور یہ ایک تاریخی مقام تھا۔ اس کے باوجود طالبان نے اس مجسمے کو اڑانے سے گریز نہیں کیا۔
تصویر: Saeed Khan/dpa/picture alliance
مجسمے کی تعمیر نو
مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی کے بعد اسے یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس مجسمے کی دوبارہ تعمیر کی کئی تجاویز ہیں لیکن ابھی کسی پر عمل نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: Xinhua/imago images
7 تصاویر1 | 7
پاک افغان سرحد پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے مابین کشیدگی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں کم از کم بائیس افراد اس لیے ہلاک ہو گئے کیوں کہ بہت زیادہ تعداد میں لوگوں نے پاکستان سے افغانستان جانے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران افغان اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کو کار بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بعد میں طالبان نے قبول کرلی۔ اس ہوٹل میں پاکستان میں تعینات چینی سفیر نے قیام کیا ہوا تھا لیکن وہ حملے کے وقت ہوٹل میں موجود نہیں تھے۔