1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا نوے فیصد کام مکمل

4 اگست 2021

پاکستان کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا مقصد سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنا ہے۔ باڑ لگانے کا کام 90 فیصد تک مکمل کر لیا گیا ہے۔

Symbolbild Neonazis Gefängnis Netzwerk Deutschland
تصویر: Getty Images

پاکستانی فوج نے منگل کے روز بتایا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا90فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور بقیہ کام اس سال موسم گرما تک مکمل کرلیا جائے گا۔ باڑ لگانے کا مقصد سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنا ہے۔

باڑ لگانے سے متعلق پاکستانی فوج کی طرف سے یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ہمسایہ ملک افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور طالبان نے افغانستان سے امریکی قیادت میں غیرملکی افواج کا انخلاء مکمل ہونے سے قبل حملے تیز کردیے ہیں۔

پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور 2611کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام سن 2017میں شروع کیا تھا جب عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں پر حملے شروع کیے تھے۔

پاکستان اور افغانستان، تلخیاں کب اور کیسے پیدا ہوئیں؟

ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجود، اقوام متحدہ

پاکستانی فوج کے ایک افسر کرنل رضوان نذیر نے منگل کے روز علاقے کا دورہ کرنے والے غیر ملکی صحافیوں کو طورخم کی اہم سرحدی راہداری کے پاس بتایا کہ پاکستان مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا بقیہ دس فیصد کام اس سال مکمل کر لیا جائے گا۔

تصویر: DW/D.Baber

یہ باڑ تقریباً تیرہ فٹ اونچی ہے اور اس کے دونوں جانب دو میٹر یعنی تقریباً ساڑھے چھ فٹ کا فاصلہ ہے۔ اور اسے خاردار تاروں سے بھردیا گیا ہے۔ فوج نے سرحد پر ہونے والی نقل و حمل پر نگاہ رکھنے کے لیے کیمرے بھی نصب کیے ہیں۔

یہ بات واضح رہے کہ افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ سرحد پشتون آبادی والے علاقے کے درمیان سے ہوکر گزرتی ہے اور دونوں جانب کے سب سے بڑے نسلی گروپ کی طاقت کو کم کرتی ہے۔

طالبان کا پاکستان سے متصل اہم سرحدی گزر گاہ پر قبضے کا دعویٰ

پاکستان اور افغانستان اکثر ایک دوسرے پر سرحد پر سرگرم  مسلم عسکریت پسندوں کو نظرانداز کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

 ج ا/ ع ت  (اے پی)

پاکستان اور افغانستان کی اہم سرحدی گزر گاہ پر ’ڈبل ٹیکس‘

02:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں