کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے پاک افغان سرحد بند ہونے کی وجہ سے سرحد کے دونوں طرف سینکڑوں مال بردار ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔
اشتہار
کوئٹہ سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار عبدالغنی کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سرحدی شہر سپن بولدک میں آٹھ سو سے زائد پاکستانی ڈرائیور پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ تجارتی سامان لے کر افغانستان گئے تھے مگر سرحد کی بندش کے باعث اب واپس نہیں لوٹ پا رہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قریب تین ہفتوں سے وفاقی حکومت کے احکامات پر صوبہ بلوچستان میں چمن بارڈر سمیت چار سرحدی گزرگاہیں مال برداری اور عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے مکمل طور پر بند ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ایران کے ساتھ تفتان سرحد کو کچھ گھنٹوں اور افغانستان کے ساتھ سرحد کو وزیر اعظم کی ہدایت پر دو روز کے لیے کھولا گیا تھا تاہم اس کے بعد دوبارہ تمام سرحدوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکومت نے یکم مارچ سے افغانستان کے ساتھ چمن اور طورخم بارڈر کراسنگ اور بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر کو بند کرنے کا علان کیا تھا۔
’افغان ٹرانزٹ اسٹینڈنگ کمیٹی‘ کے رکن زاہد اللہ کا کہنا ہے کہ سرحدوں کی بندش کے باعث تاجروں کو کئی ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔
بلوچستان میں محکمہ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سرحدی شہر چمن میں قرنطینہ مرکز بنایا جا رہا ہے اور جب یہ مرکز آپریشنل ہو جائے گا تو افغانستان میں پھنسے ہوئے افراد کو پاکستان واپسی کی اجازت دی جائے گی۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دو روز قبل ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرحد پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے اور یہاں پھنسے ہوئے افغان شہریوں کو واپس جانے دیا جائے۔ اس حوالے سے افغان حکام سے بات چیت جاری ہے۔‘‘
لیاقت شاہوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان حکومت کو کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بلوچستان میں صرف دو لیبارٹریاں کورونا وائرس کی تشخیص کا ٹیسٹ کر سکتی ہیں۔ ایک کوئٹہ میں ہے اور ایک تفتان میں۔ یہ لیبارٹریاں روزانہ آٹھ سو ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ٹیسٹ کِٹس کی کمی کے باعث وہ اتنے ٹیسٹ نہیں کر پاتیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اب تک بلوچستان حکومت تفتان سرحد سے پاکستان پہنچنے والے دو ہزار افراد کے ٹیسٹ کر چکی ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو ان کے صوبوں میں بھجوا دیا گیا ہے۔ لیاقت شاہوانی کا مزید کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کب تک افغانستان کے ساتھ سرحد بند رہے گی۔
پاکستان کی ایران اور افغانستان دونوں ممالک کے ساتھ سرحدوں سے بندش سے پہلے تک روزانہ ہزاروں افراد علاج معالجے، کاروبار یا مذہبی مقامات کی زیارت کی غرض سے گزرتے تھے۔
پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
تصویر: DW/G. Kakar
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔