پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور، کشیدگی کے سائے تلے نئی امید
30 اکتوبر 2025
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان اور پاکستان استنبول میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔ یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی اسلام آباد نے کہا تھا کہ مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، دونوں ممالک نے میزبان ملک ترکی کی درخواست پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ دونوں ممالک کی مذاکراتی ٹیمیں اس وقت استنبول میں موجود ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ پاکستانی وفد جو واپسی کے لیے تیار تھا، اب استنبول میں مزید قیام کرے گا تاکہ بات چیت کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔
پاکستان نے بدھ کو استنبول میں افغان طالبان حکومت کے ساتھ چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی۔
افغان طالبان اور پاکستان کی فوج و وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اس ماہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، یہ 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے شدید پرتشدد واقعہ تھا۔
دونوں ممالک نے 19 اکتوبر کو دوحہ میں ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، لیکن استنبول میں ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے نہیں پا سکا۔
’کابل کی پوری قیادت بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے‘
دریں اثنا پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ کہ نئی دہلی مئی میں اسلام آباد کے ساتھ چار روزہ تنازع میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بدھ کی رات 'العربیہ انگلش‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا کہ کابل میں افغان طالبان حکومت بھارت کی پراکسی بنی ہوئی ہے اور نئی دہلی نے افغانستان کے ذریعے پاکستان پر کم شدت کی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ''اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت افغانستان سے ہمارے خلاف کم شدت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اپنی شکست کا بدلہ لے رہا ہے جس کا سامنا انہیں چند ماة قبل پاکستان کی جانب سے کرنا پڑا تھا اور پاکستان کی جانب سے ان کے سات تیہارے تباہ کیے گئے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان ''بھارت کا آلۂ کار‘‘ بن چکا ہے۔
ان کے یہ ریمارکس کابل اور کسی حد تک نئی دہلی کے خلاف ان کے حالیہ بیانات کا تسلسل ہیں، جن میں انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، افغانستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں اور طالبان حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کا ذکر کیا۔
جب انٹرویو لینے والے نے کہا کہ یہ کہنا کہ بھارت کسی دوسرے ملک کا استعمال کر کے انتقام لینے کی کوشش کر رہا ہے، کیا بہت جرات مند بیان ہے۔
اس پر آصف نے جواب دیا، ''کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس بیان کو دہراؤں؟ میں ایسا کروں گا۔ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کابل اور نئی دہلی کا ''تعلق دونوں ملکوں میں کسی بھی حکومت کے باوجود برقرار ہے‘‘۔
کیا افغانستان کے ساتھ جنگ کا امکان ہے؟
جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ افغانستان کے ساتھ ''ایک وسیع یا بھرپور جنگ‘‘ دیکھتے ہیں، تو پاکستانی وزیرِ دفاع نے کہا، ''میں اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کروں گا کہ وہاں بھرپور جنگ ہو سکتی ہے۔ لیکن، اس بات کا خطرہ ہے کہ کم از کم سرحد پر حالات گرم ہو جائیں۔ اور واضح طور پر، اگر ہمارے پاس پار سرحد سے مداخلت کے شواہد ہوں گے تو ہم جوابی کاروائی کریں گے۔ ہم اندر جائیں گے اور ان کا حساب برابر کریں گے۔‘‘
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کیا شواہد ہیں جو اس الزام کو ثابت کرتے ہیں کہ نئی دہلی دوحہ اور ترکی میں طالبان نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران ''ڈوریاں ہلا رہا‘‘ تھا۔
اس پر آصف نے جواب دیا، ''جب شواہد دکھانے یا پیش کرنے کا وقت آئے گا، ہم ایسا کریں گے۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔‘‘
خواجہ آصف نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں تو افغان وزیرِ خارجہ بھارتی دارالحکومت کے دورے پر تھے۔
الزامات اور جوابی الزامات
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسی مہینے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا انعقاد ہوا۔
بات چیت کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا، جس میں فائر بندی کا فیصلہ ہوا۔ دوسرا دور ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے کے بعد ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے۔ طالبان تاہم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ادارت: رابعہ بگٹی