امريکی فوج کے ايک اعلیٰ اہلکار نے پاکستان اور امريکا کے باہمی تعلقات کو برقرار رکھنے کی وکالت کی ہے جبکہ ايک اعلیٰ امريکی سفارت کار نے بھی پاکستانی حکام سے ملاقات ميں دہشت گردی کے خاتمے کے ليے پاکستان کے کردار کو سراہا۔
اشتہار
امريکی فوج کے ايک اعلیٰ اہلکار، ميرين جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ حاليہ کشيدگی کے باوجود وہ پاکستان اور امريکا کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے ليے پر عزم ہيں۔ انہوں نے يہ بيان رواں ہفتے کے آغاز پر رپورٹرز کے ايک گروپ سے بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں بات چيت کے دوران ديا۔ جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ اگرچہ دونوں ممالک تمام معاملات پر مشترکہ موقف نہيں رکھتے، تاہم واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ زيادہ کارآمد اور با اثر دوطرفہ روابط کا خواہاں ہے۔
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کے آغاز پر اپنے ٹوئٹر پيغامات ميں اسلام آباد حکومت پر کڑی تنقيد کی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ واشنگٹن انتظاميہ برس ہا برس سے اسلام آباد کی مالی معاونت کرتی آئی ہے۔ تاہم اس کے بدلے ميں اسے صرف دھوکا ملا اور افغانستان ميں غير ملکی دستوں پر حملے کرنے والے طالبان عسکريت پسندوں کو پاکستان ميں مسلسل محفوظ پناہ گاہيں فراہم کی گئیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ان ٹويٹس پر پاکستان ميں سخت رد عمل ظاہر کيا گيا تھا۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں سولہ سال سے جاری جنگ ميں پاکستان، امريکی و ديگر غير ملکی افواج کا ایک اہم اتحادی ملک ہے۔ علاوہ ازيں افغانستان ميں تعينات غير ملکی دستوں کے ليے پاکستان ایک بہت اہم سپلائی روٹ بھی ہے۔
جنرل ڈنفورڈ نے اپنے بيان ميں واضح کيا کہ پاکستانی فوج کے ساتھ عسکری سطح پر بات چيت امريکی افواج کے مرکزی کمان کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل ہی کريں گے۔ ان کے بقول تعلقات بہتر بنانے کے ليے امريکی وزير دفاع جيمز میٹس بھی ضرورت پڑنے پر بات چيت کے اس عمل ميں شريک ہو سکتے ہيں۔
دريں اثناء امریکی وزارت خارجہ کی ايک اعلیٰ اہلکار ايلس ويلز نے بھی پاکستان کی خارجہ سيکرٹری تہمينہ جنجوعہ سے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک ملاقات کی۔ بعد ازاں اسلام آباد ميں وزارت خارجہ کی جانب سے اس بارے ميں جاری کردہ ایک بيان ميں کہا گيا کہ ایلس ويلز نے دہشت گردی کے انسداد کے ليے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور شدت پسندی کے خاتمے کے ليے انٹيلی جنس امور ميں مزيد تعاون کی ضرورت پر بھی زور ديا۔
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ امریکی امداد کس طرح مدد کرتی ہے؟
تصویر: picture-alliance/Zuma
مالی وسائل کی تقسیم
امریکا کا غیر ملکی امداد کا سسٹم، فارن ایڈ ایکٹ 1961 کے ماتحت آتا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی مالی مدد کو بہتر طریقے سے نافذ کرنا ہے۔ امریکا میں اس مالی مدد کو ’وسائل کی دنیا کے ساتھ تقسیم‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/KCNA
امریکا کتنی امداد دیتا ہے؟
چند حالیہ اندازوں کے مطابق امریکا کے وفاقی بجٹ کا کُل 1.3 فیصد حصہ امداد کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ تاہم کس شعبے میں کتنی مدد دی جاتی ہے اس تناسب میں ہر سال تبدیلی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sedensky
امداد کس طرح خرچ کی جاتی ہے؟
سال 2015 کے ایک ڈیٹا کے مطابق، کُل امداد کا 38 فیصد حصہ طویل المدتی ترقیاتی معاونت کے لیے جاری کیا گیا۔ یہ امداد عام طور پر کمزور معیشت کے حامل غریب ممالک کے علاوہ صحت کے شعبے میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain
اقوام متحدہ کا حصہ
امریکی امداد کا کُل 15 فیصد حصہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامز کے لیے مختص ہے۔ اس کے علاوہ 35 فیصد امداد عسکری اور دفاعی شعبوں کو، 16 فیصد انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر زلزلے، جنگ یا خشک سالی سے متاثرہ ممالک کو اور 11 فیصد سیاسی امداد کی مد میں دی جاتی ہے۔
تصویر: Picture alliance/Keystone/M. Girardin
کن ممالک میں امداد دی جا رہی ہے؟
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کو امریکی امداد دی جاتی ہے۔ سال 2015 کے ڈیٹا کے مطابق افغانستان، اسرائیل، مصر اور اردن کو بنیادی طور پر زیادہ امداد دی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امداد افغانستان کو سکیورٹی کی مد میں جبکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں دی گئی۔