پاکستان کے لیے نائب سابق امریکی سفیر رچرڈ ہوگلینڈ نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ان کے بقول طویل المدتی تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔
اشتہار
پاکستان اور امريکا کے درميان بڑھتی کشيدگی کے پس منظرميں پاک پيک نے پاکستان کے لیے سابق نگران اور نائب امریکی سفير رچرڈ ہوگلينڈ کے ساتھ پاک امريکی تعلعقات پرايک اہم ٹيلی فونک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس ميٹنگ ميں امريکا بھر سے تقريبا پچاس کے قريب پاکستانی نژاد امريکی شہری شريک ہوئے۔
دہشت گردوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ ختم کر دیے جائیں گے، ہلینا وائٹ
04:17
پاک پيک واشنگٹن ميں سن 1989 سے قائم ايک ایسی آرگنائزيشن ہے، جس کا مقصد امريکا ميں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ پاک پيک کے صدر ڈاکڑ جليل خان نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ یہ آرگنائزیشن لابينگ کے ذريعے تعليم، خارجہ امور سے متعلق حکومتی پالیسی، ايکٹيوزم اور شعور و آگاہی جيسے اہم معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سابق امريکی سفير برائے پاکستان رچرڈ ہوگلينڈ کے ساتھ اس آرگنائزیشن کی یہ کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ايک کڑی ہے۔
گزشتہ ہفتے منعقد ہوئی اس کانفرنس کے موقع پر پاک پيک کی بورڈ ممبر امينہ ضياء نے ڈی ڈبليو کو بتایا کہ واشنگٹن ڈی سی سے متضاد بيانات آنے کی وجہ سے پاکستانی کميونٹی ميں بے چينی بڑھ رہی ہے۔ مگر دوسری جانب لوگ سياست ميں فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہيں اور وہ اسی ليے سياسی سطح پر متحرک نظر آتے ہيں۔
اس موقع پر ڈی ڈبليو کی نامہ نگار مونا کاظم شاہ نے رچرڈ ہوگلينڈ سے انٹرویو بھی کیا۔ ان کا پہلا سوال تھا کہ پاکستان اور امريکا کی کشيدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کيا آپ پاکستان اور امريکا کو سفارتکاری جاری رکھنے کا اور باہمی تعلقات بہتر کرنے کا مشورہ ديں گے؟
اس سوال کے جواب میں منجھے ہوئے سفارتکار رچرڈ ہوگلينڈ نے کہا، ’’یہ ايک بہت اہم سوال ہے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے غير مستحکم تعلقات ان دونوں ممالک کے ليے اچھے نہيں ہیں ۔ ان دونوں ملکوں کو ايسا کچھ نہيں کرنا چاہيے جس سے ان کے خارجی تعلقات کو نقصان پہنچے۔ ہمارا ايک ماضی رہا ہے۔ ہمارے تعلقات بہت مضبوط رہے ہيں۔ اس وقت پاکستانی امريکيوں اور يو۔ ايس کانگريس کو اس رشتے اور ہمارے ماضی کے مضبوط تعلقات کو ياد دلانا ہوگا۔‘‘
اس موقع پر ہوگلینڈ نے ’سلالہ سانحہ‘ کا حوالہ ديتے ہوئے کہا، ’’ميں اُس وقت پاکستان ميں تعینات تھا۔ ميں نے وہ کشيدگی کا وقت ديکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے خارجی تعلقات اس وقت بہت خراب ہو گئے تھے مگر وقت تمام زخم بھر ديتا ہے۔ اُس وقت کچھ اچھے لوگوں کی وجہ سے، جنہوں نے پس پردہ رہ کر بہت اہم کردار ادا کيا، اور کشیدہ تعلقات بہتر بنانے میں مدد فراہم کی۔ ہر طويل الميعاد تعلق ميں اس طرح کے اتار چڑھاؤ آتے ہيں۔ ميں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے پراعتماد ہوں۔‘‘
اس ٹیلی فونک کانفرنس کے دوران پاک پيک کے ايک ممبر کے ایک سوال کے جواب میں ہوگلینڈ نے کہا، ’’بھارت خطے ميں اپنی علاقائی طاقت کو برقرار رکھنے کے ليے جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس کو پورا حق ہے۔ ہر ملک کو اپنا بين الاقوامی پارٹنر چننے کی مکمل آزادی ہے۔ پاک چين دوستی ہميشہ سے خاص رہی ہے۔ اب سی پيک معاہدے کے بعد اور بھی۔۔۔ البتہ پاکستان اور روس کے بڑھتے رشتے کچھ تعجب کا باعث ہيں۔ رشتوں ميں توازن رکھنے سے ملک مضبوط ہوتے ہيں۔‘‘
پاکستانی امريکيوں سے اپنی کال کے دوران سفارتکار ہوگلینڈ نے کہا، ’’جو لوگ اس سياسی تناؤ ميں بہتری کے ليے کوشاں ہيں، انہيں چاہيے کے وہ خارجہ پاليسی سازوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سفیروں کا کام غیر سیاسی ہوتا ہونا چاہیے، ’’ايک امريکی سفارتکار کا کام وہاں کے لوگوں کو سمجھنا ہے، جہاں وہ تعینات ہے۔ اس کا کام یہ نہیں کہ وہ مخصوص سياسی نظريات کو فروغ دے ۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے پاک پيک کی کوششوں کو بہت سراہا اور اس آرگنائزیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔