1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک ایران سرحد پر کشیدگی بڑھتی ہوئی

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ30 اکتوبر 2013

ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں ایرانی بارڈر سکیورٹی فورسز پر باغیوں کے حملے اور جواب میں ایرانی علاقے سراوان میں زیر حراست سولہ بلوچ نوجوانوں کو دی جانے والی پھانسی پاک ایران سرحدی علاقے میں حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ ہیں۔

پاک ایران سرحد پر منشیات کی اسمگلنگ کو رونے کے لیے ایران کی خصوصی انسدادِ منشیات فورس شہر زاہدان میں اپنی ایک مشق کے دوران
پاک ایران سرحد پر منشیات کی اسمگلنگ کو رونے کے لیے ایران کی خصوصی انسدادِ منشیات فورس شہر زاہدان میں اپنی ایک مشق کے دورانتصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

مبصرین کے مطابق پاکستان اور ایران نے اپنی مشترکہ سرحد کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاک ایران سرحد پر حالیہ کشیدگی سے جہاں دونوں ہمسایہ ممالک کے بلوچ اکژیتی علاقوں میں حکومت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے، وہیں پاکستانی صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے ایرانی حکومت کے ہاتھوں 16 بلوچ نوجوانوں کی پھانسی کو بلوچوں کی نسل کُشی سے تعبیر کرتے ہوئے سخت احتجاج شروع کر دیا ہے۔

پاک ایران سرحد پر متعینہ ایک ایرانی سرحدی اہلکارتصویر: IRNA

ایران کے اس مطالبے کے جواب میں کہ پاکسان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ایران پاکستان پر الزام تراشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان اپنی سرحد کو محفوظ بنائے۔ یہ صرف ایک ملک کا تو کام نہیں، دونوں ممالک کو اس کی حفاظت کے لیے کام کرنا ہو گا۔ بارڈر کا کنٹرول جوائنٹ ہوتا ہے۔ اگر دونوں ممالک اس حوالے سے تعاون کریں تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ پاکستان کی حکومت میں رواداری ایرانی حکومت کی نسبت زیادہ ہے، اس لیے یہاں احتجا ج بھی ہو جاتا ہے مگر ایران کے سخت گیر رویے کی وجہ سے وہاں لوگوں کا احتجا ج نہیں ہو پاتا۔‘‘

حسن عسکری رضوی کا مزید کہنا تھا کہ غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے پاک ایران سرحد پر غیر قانونی آمدورفت حالیہ کشیدگی کی سب سے اہم وجہ ہے:’’پاکستان اور ایران کی سرحد بہت طویل اور غیر محفوظ ہے۔ یہاں کئی گروپ کام کر رہے ہیں اور جنداللہ کے علاوہ نئے گروپ بھی وہاں سرگرم ہو گئے ہیں۔ ایسی حالت میں بارڈر پر مؤثر سکیورٹی انتظامات سے ہی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ پاکستان اکیلے یہ سب کچھ اس لیے نہیں کر سکتا کیونکہ وہاں بھی کئی حکومت مخالف گروپ موجود ہیں، جو اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

ایرانی شہر زاہدان میں جند اللہ سے قبضے میں لیے گئے ہتھیاروں کی نمائش کی جا رہی ہےتصویر: AP

ایران اور پاکستان کے درمیان تفتان کی سرحد پر سامان کی ترسیل کے حوالے سے روزانہ پانچ ہزار سے زائد مزدوروں کی آمدو رفت ہوتی ہے۔

افغانستان سے منشیات یورپ سمگل کرنے کے لیے ایران ایک اہم راستہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاک ایران سرحد پر سمگلروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں بھی ایران کی سرحدی سکیورٹی پر مامور کئی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمے داری ایران میں سر گرم مسلح گروہ جنداللہ نے قبول کی ہے۔ دو روز پہلے بلوچستان کے علاقے چاغی میں بھی جنداللہ نامی اس تنظیم نے مبینہ طور پر ایرانی حکومت کے لیے مخبری کرنے والے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں