پاک بھارت تعلقات ایک بار پھر معمول کی جانب گامزن
28 جولائی 2011اگرچہ نئی دہلی میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں کوئی ٹھوس معاہدہ طے نہیں پا سکا، مگر اس میں مثبت امید پائی جاتی تھی جس میں جنوبی ایشیا میں استحکام لانے کی مشترکہ ذمہ داری کو تسلیم کیا گیا۔
یہ دونوں روایتی حریف ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک سال میں پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے فروری میں جامع امن مذاکرات کا عمل بحال ہوا تھا جسے بھارت نے 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد معطل کر دیا تھا۔
مذاکرات کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ تعلقات درست سمت میں گامزن ہیں جبکہ ان کی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر نے 'ذہنی سوچ میں تبدیلی' کا حوالہ دیا جس کے نتیجے میں تعاون کا نیا عہد شروع ہوا ہے۔
کرشنا نے کہا، ‘‘ہمیں کچھ فاصلہ طے کرنا ہے مگر کھلے ذہن اور مثبت انداز کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ ہم دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات کی مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔’’
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اب امن عمل میں رکاوٹ پیدا نہیں ہو سکتی اور دونوں ملک اسے آگے بڑھانے پر کاربند ہیں۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے، تجارت کو فروغ دینے اور امن عمل کو جاری رکھنے پر زور دیا گیا۔
چونتیس سالہ حنا ربانی کھر کو گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا اور بعض لوگوں نے یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا وہ اس کم عمری میں دنیا کے انتہائی مشکل سرحد پار تعلقات کو حل کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔
دونوں وزرائے خارجہ نے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان مثبت تعلقات کے ذریعے جنوبی ایشیا کے وسیع خطے میں امن کو یقینی بنانے کے کردار پر زور دیا۔
واشنگٹن میں دفتر خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے ان مذاکرات کی تعریف کی۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارت کاری ہمیشہ سے ایک مثبت قدم ہے۔
مذاکرات کے بعد ہونے والی ایک بریفنگ میں بھارت کی سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ نے پاکستان کی جانب سے 2008 ممبئی حملوں کے ذمہ دار افراد کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بھارت ان حملوں کا الزام پاکستانی عسکریت پسندوں پر عائد کرتا آیا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی