پاک بھارت تعلقات، بھارت سے درآمدات: پاکستانی حکومت کا یو ٹرن
عبدالستار، اسلام آباد
1 اپریل 2021
پاک بھارت تعلقات میں پاکستان نے یو ٹرن لیتے ہوئے بھارت سے مختلف اشیاء کی درآمد کے کل کیے گئے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں کل کا فیصلہ بھارت سے تعلقات میں بہتری کی کوششوں کا حصہ تھا۔
اشتہار
پاکستانی حکومت نے آج جمعرات کے روز جس فیصلے کو مسترد کر دیا، وہ کل بدھ اکتیس مارچ کو کیا گیا تھا اور اس پر کئی حلقے اگر تنقید کرنے لگے تھے تو کئی دیگر حلقوں نے اسے سراہا بھی تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ دس دنوں سے دوطرفہ تعلقات بتدریج بہتر ہوتے جانے کا تاثر پایا جاتا ہے اور کئی پاکستانی حلقوں میں تو یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے میں سعودی عرب اور امریکا پس پردہ اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بدھ اکتیس مارچ کو وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے یہ عندیہ دیا تھا کہ پاکستان بھارت سے دھاگا، چینی اور کپاس درآمد کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کی وجہ سے حکومت دباؤ میں آ گئی اور آج کابینہ نے کل کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ یوں اسلام آباد حکومت نے محض چوبیس گھنٹے میں ہی اپنا ایک اہم فیصلہ بدل دیا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اقتصادی لحاظ سے بہت منفی ہے۔ پاکستان کے معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی اور ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر ایم ضیاء الدین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پوری دنیا میں اس وقت اشیاء کی مال برداری بہت مہنگی ہے۔ بھارت سے یہ اشیاء ہمیں سستی پڑتیں۔ چینی کی ملک میں قلت ہے۔ کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی۔ اب بھارت سے درآمدات کے فیصلے کی منسوخی کی وجہ سے ہمیں یہ اشیاء مہنگی پڑیں گی، جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں آنے والی حالیہ تیزی بھی متاثر ہو گی اور رمضان کے مہینے اور عید کے موقع پر چینی کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
حکومت کا صرف یہی فیصلہ تنقید کے نشانے پر نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ تعلقا ت کی بحالی کا پورے عمل ہی مخالفت کی زد میں ہے۔ سیاسی جماعتیں اس کی بھرپور مخالفت کر رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے آج جمعرات کے روز حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا، ''کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ اب تجارت کر رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی ان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔ کشمیری تنظیمیں بھی اس خیر سگالی پر نالاں ہیں۔
بھارت سے تعلقات میں بہتری اور باہمی تجارت کی کوششوں پر اس لیے بھی تنقید ہو رہی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ہٹلر قرار دیا تھا۔
معروف کاروباری شخصیت اور صنعت کار احمد چنائے کا کہنا ہے کہ معاشی نقطہ نظر سے تعلقات کی بحالی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری کاٹن کی پیداوار چودہ ملین تھی، وہ اب چھ سے سات ملین رہ گئی ہے۔ ہم یہ کمی بھارت سے درآمد کے ذریعے پوری کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چینی کی درآمد سے بھی قیمتوں میں توازن پیدا ہوتا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلقات صرف ایک یا دو اشیاء کی درآمد برآمد کے لیے بہتر نہیں بنانا چاہییں بلکہ انہیں مجموعی طور پر بہتر بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''بھارت بہترین مشینیں بنا رہا ہے، جن سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سبزی اور دوسری اشیاء کی تجارت بھی ہمیں فائدہ دے سکتی ہے۔‘‘
پیاز نے آج کل جنوبی ایشیا کے دو پڑوسی دوست ملکوں کے تعلقات میں تلخی پیدا کر دی ہے۔ بنگلہ دیش نے بھارت کی طرف سے پیاز کی برآمدات اچانک اور بغیر اطلاع کے روک دیے جانے پر ناراضگی اور ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com/A. Mannan
بھارت پر انحصار
بنگلہ دیش پیاز کی اپنی گھریلو ضرورت کے لیے بڑی حد تک بھارت پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ کھپت دو لاکھ ٹن ہے۔ فی الحال اس کے پاس ساڑھے پانچ لاکھ ٹن کا اسٹاک ہے اور اس نے ترکی سے پیاز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: AP
پیاز کی تلخی
گزشہ ستمبر میں بھی بھارت نے بنگلہ دیش کو پیاز کی برآمدات رو ک دی تھی جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوگئی تھی۔ گزشتہ اکتوبر میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے بھارت کے دورے کے دوران کچھ یوں شکایت کی تھی”مجھے معلوم نہیں، آپ نے کیوں پیاز بند کردیا، تھوڑا نوٹس دینے سے اچھا ہوتا، اچانک بند کردیا اور ہمارے لیے مشکل کھڑی ہوگئی۔ “
تصویر: Imago Images/VWPics/L. Vallecillos
کوئی خزانہ مل گیا
بنگلہ دیش میں چٹاکانگ کے خاتون گنج میں یہ بچے ایک ندی سے سڑے ہوئے پیاز نکال رہے ہیں۔ جسے تھوک تاجروں نے سڑجانے کے بعد ندی میں پھینک دیا تھا۔
تصویر: bdnews24.com
موقع کا فائدہ
افریقی ملک سنیگال میں عیدالفطر کے موقع پر پیاز سے خصوصی ڈش تیار کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پیاز کی مانگ کافی بڑھ جاتی ہے اور تاجر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض اوقات جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Seyllou
ہائے یہ مجبوریاں
جنوب مشرقی ترکی کے شہر دیار باقر میں یہ کرد خاتون ایک بازار میں پیاز فروخت کرنے جارہی ہے۔ دیار باقر میں 2016 کے اوائل میں سیکورٹی فورسیز اور کردش ورکرز پارٹی کے جنگجووں کے درمیان تقریباً تین ماہ تک جنگ ہوتی رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Akengin
احتجاج کا ہتھیار؟
جنوبی غزہ پٹی میں اسرائیل۔غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوج کے خلاف مظاہرے کے دوران اس فلسطینی نے توپیاز کو احتجاج کا ہتھیار بنالیا۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
کفایہ تحریک
قاہرہ میں سیدہ زینب مسجد کے سامنے ہاتھوں میں روٹی اور پیا ز اٹھائے ہوئے حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والی یہ خاتون کفایہ تحریک کی حامی ہے۔ کفایہ تحریک کو بعض افراد عوامی تحریک اورصدر حسنی مبارک کے زوال کا آغاز بھی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
پیاز نے حکومت گرادی
پیاز بھارت میں ایک اہم سیاسی موضوع رہا ہے۔ 1998میں دہلی اور راجستھان کے ریاستی انتخابات میں پیاز کی اونچی قیمتیں حکومت کو لے ڈوبی تھیں۔ اب بھی جب کبھی پیاز کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت وقت کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Krishnan
پاکستانی امداد
یوں تو بھارت اور پاکستان میں تعلقات کبھی بھی بہت زیادہ خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ تاہم مشکل گھڑی میں دونوں نے ایک دوسرے کی مدد بھی کی ہے۔ 2015 میں جب بھارت میں پیاز کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے اس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں تو پاکستان نے بڑی مقدار میں پیاز برآمد کیا۔ یہ تصویر کراچی کے ایک مارکیٹ کی ہے۔ تحریر: جاوید اختر
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
9 تصاویر1 | 9
تعلقات کی بحالی مثبت تبدیلی
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں سربراہان مملکت و حکومت کو اس طرح کے القابات دینا کوئی نئی بات نہیں۔ نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں، جن میں سربراہان مملکت و حکومت نے ایک دوسرے پر سنگین الزام لگائے لیکن بعد میں تعلقات بہتر بنانے کے لیے ہاتھ بھی بڑھائے۔
بکارے نجیم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ پہلے امریکا نے افغان مجاہدین کو عظیم مجاہدین قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک شیطانی طاقت سے لڑ رہے تھے۔ اور بعد میں افغان مجاہدین پر ہی دہشت گردی کا الزام لگایا اور پھر افغان طالبان سے بات چیت شروع کر دی۔ بالکل اسی طرح پہلے صدام حسین کو پالا گیا۔ اس سے بڑے اچھے تعلقات رکھے گئے اور بعد میں اس کو ہٹلر قرار دے دیا گیا۔ حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر کو قاتل قرار دیا اور آپ دیکھیں گے کہ آنے والے وقتوں میں وہ صدر پوٹن سے اچھے تعلقات ہموار کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ تو اگر عمران خان نے مودی کو ہٹلر قرار دے دیا تھا، تو میرے خیال سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہمیں تعلقات میں بہتری کی طرف جانا چاہیے۔‘‘
پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اس پکچر گیلری میں جانیے دنیا میں اس اہم فصل کی سب سے زیادہ پیداوار کن ممالک میں ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۰۔ برکینا فاسو
مغربی افریقی ملک برکینا فاسو 283 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۹۔ ترکمانستان
نویں نمبر پر ترکمانستان ہے جہاں سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم میں 288 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/H. Elsherif
۸۔ ترکی
ترکی اس حوالے سے 697 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پر رہا۔
تصویر: MEHR
۷۔ ازبکستان
وسطی ایشیائی ملک ازبکستان 811 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہا۔
تصویر: Denis Sinyakov/AFP/Getty Images
۶۔ آسٹریلیا
سن 2016-17 کے پیداواری موسم کے دوران آسٹریلیا میں 914 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی اور وہ عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۵۔ برازیل
برازیل میں مذکورہ عرصے کے دوران 1524 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی اور وہ کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۴۔ پاکستان
کپاس کا شمار پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں ہوتا ہے اور یہ جنوبی ایشائی ملک کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم کے دوران پاکستان میں 1676 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیدوار ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۳۔ امریکا
تیسرے نمبر پر امریکا ہے جہاں گزشتہ پیداوری موسم کے دوران 3738 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی، جو کہ پاکستان سے تقریبا دو گنا زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۲۔ چین
قریب پانچ ہزار میٹرک ٹن کپاس کے ساتھ چین دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
۱۔ بھارت
دنیا میں سب سے زیادہ کپاس بھارت میں کاشت کی جاتی ہے۔ گزشتہ پیداواری موسم کے دوران بھارت میں 5880 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
مخالفت منفی ہے
پاکستان میں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں عمران خان کی طرف سے خیر سگالی پیغامات کے ذریعے بھارت سے تعلقات میں بہتری کی کوششوں کو منفی قرار دے رہی ہیں۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سجاد مہدی کا کہنا ہے کہ ملکی سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ منفی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے جو خیر سگالی پیغام دیا ہے، وہ بہت مثبت ہے۔ اچھا ہوتا کہ اگر اس میں کشمیر کا تذکرہ بھی کیا جاتا۔ لیکن پھر بھی یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے انتہا پسند قوتوں کو طاقت ملے گی۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو پاک بھارت مذاکرات کی غیر مشروط طور پر حمایت کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق، ''سیاسی جماعتوں کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان مذاکرات کی دعوت عمران خان نے دی یا کسی اور نے۔ انہیں ہرحالت میں بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی حمایت کرنا چاہیے اور ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے کہ بھارت سے اور خطے کے دیگر پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری ہی ملک کے مفاد میں ہے۔‘‘
کچھ بھارتی مصنوعات، جو پاکستان درآمد نہیں کی جا سکتیں
پاکستانی وزارت تجارت نے ایک ہزار سے زائد بھارتی مصنوعات کو درآمد کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان میں سے چند دلچسپ اشیا کیا ہیں، جانیے اس پکچر گیلری میں۔