1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تعلقات کو نئی جہت دینے کی کوشش

8 اپریل 2012

صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے مابین آج کی ملاقات نے دونوں حریف ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نئی جہت دینے اور مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

تصویر: AP

اگرچہ صدر پاکستان آصف علی زرداری بھارت کے نجی دورے پر آئے تھے اور وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ساتھ بات چیت کے لئے پہلے سے کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں تھا اس کے باوجود دونوں رہنماوں نے تقریباً چالیس منٹ تک مختلف امور پر تنہائی میں تبادلہ خیال کیا۔ اس دوران دہشت گردی، آبی تنازعات، حافظ سعید کا معاملہ، کشمیر، سیاچن اور سرکریک وغیرہ جیسے امور بھی زیر بحث آئے۔ بات چیت کے بعد دونوں رہنماؤں نے وہاں موجود میڈیا سے غیر متوقع طور پر مشترکہ خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے درمیان مثبت، تعمیری اور سود مند بات چیت ہوئی۔

صدر زرداری نے کہا کہ ’بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ ہم لوگ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم لوگوں نے ان تمام امور پر بات چیت کی، جن پر گفتگو کی جا سکتی تھی‘۔ زرداری نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور امید ظاہر کی کہ دونو ں لیڈروں کی پاکستان کی سرزمین پر جلد ہی ملاقات ہو گی۔ ڈاکٹر سنگھ نے اس موقع پر کہا:’’بھارت اور پاکستان کے درمیا ن رشتوں کو متاثر کرنے والے تمام باہمی امور پر صدر زرداری کے ساتھ دوستانہ ماحول میں نہایت تعمیری بات چیت ہوئی اور میں اس ملاقات سے بہت مطمئن ہوں‘‘۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان تقریباً چالیس منٹ تک تنہائی میں بات چیت ہوئیتصویر: AP

ڈاکٹر سنگھ نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ ان کے باہمی تعلقات معمول پر آ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کے مابین بہت سارے مسائل ہیں لیکن ہم اس ملاقات سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں‘۔

صدر زرداری اور وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ کی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بھارتی خارجہ سیکرٹری رنجن متھائی نے بتایا کہ دونوں لیڈروں نے دہشت گردی کے معاملے پر تفصیلی بات چیت کی۔ ڈاکٹر سنگھ نے صدر زرداری سے کہا کہ ممبئی حملے کے قصور واروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا اور پاکستان کی سرزمین سے بھارت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں پر لگام لگانا ضروری ہے۔ متھائی نے کہا کہ وزیر اعظم نے جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کا معاملہ بھی اٹھایا، جس پر پاکستانی صدر نے کہا کہ یہ معاملہ تفصیلی بات چیت کا متقاضی ہے اور دونوں ملکوں کے داخلہ سیکرٹریوں کے درمیان جلد ہی اس پر بات چیت ہو گی۔ متھائی نے بتایا کہ دونوں لیڈروں نے باہمی تجارت کو بڑھانے اور ایک دوسرے ملکوں کے عوام کے درمیان رابطے کو زیادہ مستحکم بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان نئے، جامع اور سہل ویزا پروٹوکول پر دستخط کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے تمام حل طلب مسائل کو مرحلہ وار اور یکے بعد دیگرے حل کرنے سے اتفاق کیا اور کہا کہ کسی ایک معاملے سے ان کو مربوط کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ بھارت نے سیاچن میں برفانی طوفان میں پاکستانی فوج کے جوانوں کے پھنس جانے کے واقعے پر تاسف کا اظہار کیا اور ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی۔

خیال رہے کہ صدر زرداری کا یہ ایک روزہ دورہ ایک نجی دورہ تھا۔ وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک وفد بھی تھا، جس میں ان کے بیٹے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، وزیر داخلہ رحمان ملک اور خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی بھی شامل تھے۔

صدر زرداری اپنے بیٹے بلاول کے ہمراہ، نئی دہلی سے اجمیر کے لیے روانہ ہوتے وقت اپنے میزبانوں کو الوداع کہہ رہے ہیںتصویر: AP

دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً چالیس سال قبل 1972ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے ساتھ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اس وقت بھارت آئی تھیں، جب دونوں ملکوں نے شملہ معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ بے نظیر اس وقت امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی طالبہ تھیں۔ اس مرتبہ ان کے بیٹے بلاو ل بھٹو اپنے والد اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ آئے ہیں جو برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔

ڈاکٹر سنگھ کی طرف سے صدر زرداری کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں حکمران کانگریس پارٹی کے جنرل سیکرٹری راہل گاندھی بھی موجود تھے۔ راہل اور بلاول کھانے کی میز پر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ بلاول نے راہل کو پاکستان آنے کی دعوت دی، جسے راہل نے قبول کر لیا اور بلاول سے کہا کہ وہ نوجوانو ں کی ایک ٹیم لے کر دوبارہ ہندوستان آئیں۔ راہل کی والدہ اور حکمران یو پی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے ظہرانے میں شرکت نہیں کی۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں