پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر: جیش محمد کے لیڈر مسعود اظہر کون؟
22 فروری 2019
دو عشرے قبل ایک طیارے کے اغوا کے واقعے کو دنیا نے آٹھ روز تک ایسے دیکھا کہ ہر کوئی خوف زدہ تھا۔ انڈین ایئرلائنز کی اس مسافر پرواز کی ہائی جیکنگ کے نتیجے میں بھارت تین کشمیری عسکریت پسند رہا کرنے پر رضا مند ہو گیا تھا۔
اشتہار
یہ 1999ء کی بات ہے کہ بھارت کی انڈین ایئر لائنز کے ایک مسافر طیارے کو اغوا کر کے اس کا رخ افغانستان کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ ہائی جیکروں کے مطالبات واضح تھے۔ اس واقعے کو اس کے اختتام تک پہنچنے میں آٹھ دن لگے تھے، اور ان آٹھ دنوں کے دوران ہر کوئی خوف زدہ ہی تھا کہ اب کیا ہو گا؟ پھر نئی دہلی حکومت تین کشمیری عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گئی تھی۔
بیس سال پرانے فیصلے کی قیمت
آج بیس برس بعد بھارت کو اپنے اس فیصلے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ ان تین رہا کیے گئے کشمیری عسکریت پسندوں میں سے ایک کا نام مسعود اظہر تھا۔ بعد میں مسعود اظہر نے جیش محمد کے نام سے ایک ایسے عسکریت پسند گروہ کی بنیاد رکھی، جو اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت میں کئی مسلح حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔
ان میں سے تازہ ترین حملہ گزشتہ ہفتے پلوامہ میں کیا جانے والا وہ خود کش کار بم حملہ تھا، جس میں بھارت کے 40 سے زائد نیم فوجی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ یہ حملہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین عشروں کے دوران آج تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ثابت ہوا تھا۔
پلوامہ حملے کا نتیجہ
چودہ فروری کو کیے گئے پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ایک دوسرے کی حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ کشیدگی ایک بار پھر اپنی انتہائی حد تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے کہ جیش محمد ایک ایسی عسکریت پسند تنظیم ہے، جو پاکستان میں قائم کی گئی تھی اور جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں کرنے والے بڑے گروہوں میں سے ایک ہے۔
پاکستان نے جیش محمد کو قانونی طور پر تو اپنے ہاں ممنوع قرار دے رکھا ہے لیکن کئی ماہرین کہتے ہیں کہ جیش محمد اور ایسی ہی دیگر عسکریت پسند تنظیمیں وہ ذرائع ہیں، جن کی مدد سے پاکستان مبینہ طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہلاکت خیز واقعات کی وجہ بنتا رہتا ہے۔ پاکستان اپنے خلاف بھارت کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
مسعود اظہر پاکستان میں
مسعود اظہر کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہیں بین الاقوامی برادری نے کبھی بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا۔ ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ مسعود اظہر حقیقتاﹰ اس وقت کہاں ہیں، یہ بات کوئی بھی تیقن سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق مسعود اظہر پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں مقیم ہیں۔
پاکستان کے ایک سکیورٹی تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق مسعود اظہر 1968ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب ہی کے رہنے والے ایک اسکول ٹیچر کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ وہ مبینہ طور پر پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرتگال کے ایک پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے متعدد عسکریت پسند گروپوں سے رابطے قائم کیے تھے۔
بعد میں مسعود اظہر سری نگر کی سڑکوں اور گلیوں میں نظر آنے والی ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئے اور اپنی شعلہ بیانی کے باعث بہت مشہور ہو گئے تھے۔ عامر رانا کے مطابق سری نگر میں مسعود اظہر نے کئی عسکریت پسند گروپوں کے مابین رابطہ کاری بھی کی تھی، جس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد قدرے منظم اور زیادہ واضح ہو گئی تھی۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
بھارتی جیل سے فرار کی کوشش
مسعود اظہر کو بھارتی حکام نے دہشت گردی کے الزامات میں 1994ء میں گرفتار کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران یہ عسکریت پسند رہنما اپنی جیل کے حکام کو اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ اسے زیادہ عرصے تک سلاخوں کے پیچھے نہیں رکھ سکیں گے۔
ایک سابق سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ جیل میں قید کے دوران جب چند قیدیوں نے فرار ہونے کے لیے ایک سرنگ کھودی تو مسعود اظہر کا کہنا تھا کہ اس سرنگ کو استعمال کرتے ہوئے پہلے باہر وہ نکلیں گے۔ لیکن وہ ایک بھاری بھرکم جسم کے مالک ہونے کی وجہ سے اس سرنگ میں پھنس گئے تھے اور یوں بھارت کی اس جیل سے قیدیوں کے فرار کا پورا منصوبہ ہی ناکام ہو گیا تھا۔
1999ء میں انڈین ایئرلائنز کی جس مسافر پرواز کو ہائی جیک کیا گیا تھا، وہ نیپال میں کھٹمنڈو سے نئی دہلی جا رہی تھی۔ ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ کرسمس کے تہوار سے ایک شام قبل چوبیس دسمبر کو پیش آیا تھا۔ پھر یہ طیارہ افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا تھا، جہان اس وقت طالبان کی حکومت تھی۔
بن لادن اور ملا عمر سے ملاقاتیں
کہا جاتا ہے کہ اس طیارے کو ہائی جیک کرنے والوں میں سے ایک ابراہیم اطہر تھا، جو مسعود اظہر کا چھوٹا بھائی تھا۔ عامر رانا کے بقول جیل سے اپنی رہائی اور بھارت سے رخصتی کے بعد جب مسعود اظہر کو افغانستان پہنچایا گیا، تو وہاں اس عسکریت پسند لیڈر نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن اور طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا عمر سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
مسعود اظہر نے جیش محمد کی بنیاد 2000ء میں رکھی تھی۔ اس کے صرف ایک سال بعد اس گروپ نے بھارت میں اس مسلح حملے کی ذمے داری قبول کر لی تھی، جو نئی دہلی میں ملکی پارلیمان پر کیا گیا تھا اور جس میں دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تب اسی واقعے کے باعث پاکستان اور بھارت تقریباﹰ ایک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد مسعود اظہر کو پاکستان میں گرفتار کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر لاہور کی ایک عدالت نے 2002ء میں ان کے خلاف الزامات کے شواہد نہ ہونے پر ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جب پاکستانی عسکریت پسندوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستانی ریاست کی طرف موڑ دیا تھا، تو مسعود اظہر ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے اس وقت اپنے لیے غیر محسوس انداز میں موجودگی اور نمایان نہ ہونے کو ترجیح دی تھی۔
بھارتی فوجی اڈے پر حملہ
جیش محمد نے 2016ء میں جب ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک بڑے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی، تو بھارت کو ایک بار پھر پاکستان کی طرف اشارے کا موقع مل گیا تھا۔ یہ حملہ کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر کیا گیا تھا، جس میں کم از کم سات بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
مسعود اظہر کے لیے گھر پر نظر بندی یا ’حفاظتی حراست‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن انہیں آج تک باقاعدہ طور پر کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ گزشتہ برس جولائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں اپنے حامیوں سے کسی نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر اپنے خطاب میں مسعود اظہر نے کہا تھا کہ ان کے پاس ایسے سینکڑوں عسکریت پسند موجود تھے، جو لڑتے لڑتے اپنی جانیں تک قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اس تقریر کے بعد سے کسی نے مسعود اظہر کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔
اقوام متحدہ میں چین کا ویٹو
جیش محمد پر پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ اور بھارت نے بھی قانونی پابندی لگا رکھی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے تو اس گروہ کو اپنی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سطح پر کئی بار یہ کوشش بھی کی تھی کہ مسعود اظہر کو عالمی ادارے کی طرف سے دہشت گرد قرار دے دیا جائے، لیکن سلامتی کونسل میں بھارت کی اس کاوش کو ہر بار پاکستان کے دوست ہمسایہ ملک چین نے ناکام بنا دیا تھا۔
م م / ع ح / اے ایف پی
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔