1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت کشیدگی اور امن کی کوششیں

25 جنوری 2009

بھارت کے دورے سے واپس آنے والے پاکستانی سول سوسائٹی کے امن کارواں میں شامل ممتاز پاکستانی ادیب منو بھائی نے اس شبے کا اظہار کیا کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی خفیہ ادارے ملوث ہو سکتے ہیں۔

تصویر: AP

پاکستانی سول سوسائٹی کا چوبیس رکنی وفد بھارت کا دورہ کرنے کے بعد واپس پاکستان آ گیا ہے۔ اس وفد میں شامل افراد نے اپنے دورے کو کامیاب قرار دیا اور کہا کہ وہاں کےعوام بھی امن کے خواہاں ہیں جنگ کے نہیں۔

اس وفد میں شامل مختلف مکتب ہائے فکر سے تعلق رکنے والی پاکستان کی ممتاز شخصیات نےکہا کہ اس دورے کا مقصد پورا ہوا ہے۔

اس وفد میں شامل دیگر شخصیات کے ہمراہ پاکستان کے ممتاز ادیب منو بھائی بھی شامل تھے۔ ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئےمنو بھائی نے کہا کہ اس وفد کے جواب میں جلد ہی ایک بھارتی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وفد کی صدارت کلدیپ نئیر کریں گے۔

منو بھائی نے کہا کہ عوامی سطح پر رابطے بہت اہم ہیں اور اس دورے کے دوران انہیں احساس ہوا کہ بھارتی عوام اگرچہ غم و غصہ میں ہیں تاہم وہ جنگ کہ نہیں بلکہ امن کے خواہاں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بھارت ممبئی حملوں کا الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پرعائد کرتا ہے تو اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے اس واقعہ میں شامل ہوں کیونکہ وہ ان اداروں پر اعتماد نہیں رکھتے۔

ممبئی حملوں میں پاکستانی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے بھارتی الزام پر انہوں نے کہا " یہ شبہ ہمارے دل میں بھی ہیں کہ ہماری ایجنسیاں ہو سکتی ہیں جو involve ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ایجنسیوں کے character پر بھی ہمیں پوری طرح ایمان نہیں ہے"۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی اس بارے میں انہوں نے کہا کہ کیونکہ بھارت میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اوربھارتیہ جنتا پاڑتی کے رہنما ان تیاریوں میں مصروف ہیں اس لئے وہ اس پاکستانی وفد سے نہیں مل سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کی وجہ سے کانگرس پارٹی محتاط ہے کہ اگر وہ پاکستان کی طرف نرم رویہ رکھے گی تو بھارتیہ جنتا پارٹی اس بات کو مسلہ بنا کر انکا ووٹ بینک خراب کر سکتی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آجائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں