پاک بھارت کشیدگی، پس پردہ سفارت کاری اور سعودی عرب کا کردار
20 فروری 2019اسلام آباد کی ان کوششوں پر کئی سیاسی مبصرین یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا ریاض حکومت پاکستان اور بھارت کے مابین مفاہمت کے لیے مخلصانہ کوششیں بھی کرے گی اور آیا نئی دہلی مصالحت کی ان کاوشوں کو قبول بھی کر لے گا۔
نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی پلوامہ میں حالیہ حملے کی وجہ سے شدت اختیار کر چکی ہے، جس کا الزام نئی دہلی نے پاکستان میں ممنوعہ شدت پسند تنظیم جیشِ محمد پر لگایا ہے، جس کا مرکز پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان نے پرنس محمد بن سلمان کو ایک زبانی پیغام دیا ہے، ’’انہیں کشمیر کے حوالے سے بریف کیا گیا اور بتایا گیا کہ اسلام آباد پلوامہ حملے میں بالکل بھی ملوث نہیں۔ عمران خان کی تقریر کے بیشتر نکات سے انہیں آگاہ کر دیا گیا تھا کیونکہ ہمیں پتہ ہے جب بھی کسی ملک کا سربراہ بھارت کا دورہ کرتا ہے، تو نئی دہلی مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شق اس میں ڈال دیتا ہے۔ اور اگر وہ ملک بھارت کے قریب ہو تو پاکستان کا نام بھی ڈلوا دیا جاتا ہے۔ اس لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر ایسا کیا گیا اور میں نے سعودی ولی عہد اور بھارتی حکومت کا جو مشترکہ اعلامیہ پڑھا ہے، اس میں اس طرح کو کوئی شق نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بھارت پاکستان پر محدود یا وسیع پیمانے پر حملہ کرنے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ نئی دہلی نے اس سے پہلے بھی پاکستان میں ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے اسلام آباد نے مسترد کر دیا تھا۔ لیکن لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ بھارت کسی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صرف میڈیا سے جعلی خبریں نشر کرائی گئیں کہ بھارت ایسا کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں بھارتی فوج کی کوئی نقل و حرکت نظر نہیں آئی اور نہ ہی کسی جارحانہ تیاری کا کوئی اشارہ ملا ہے۔‘‘
سیاست دانوں کا خیال ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی نسبتاﹰ بہت آزاد ہے اور وہ کسی دوسرے ملک کی طرف سے مصالحت کو تسلیم نہیں کرتا اور یہ کہ سعودی عرب پاکستان کی خاطر اپنی بھارت جیسی منڈی کو قربان نہیں کرے گا، جہاں وہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر حاصل بزنجو کے خیال میں سعودی عرب پاکستان کی خاطر اپنے مفادات قربان نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ محمد بن سلمان نے یہ کہا ہے کہ ہماری (سعودی عرب کی) کشمیر پر وہ پالیسی نہیں ہے، جو پاکستان کی ہے۔ اگر یہ بیان ان کا نہیں بھی ہے، تو بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب سب سے پہلے اپنے مفادات دیکھے گا۔ وہ پاکستان کی طرف سے اس مصالحت کی بات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے گا کیونکہ ہمارے ہاں تو سعودی رہنماؤں نے صرف آئل ریفائنری تعمیر کرنے کی بات کی ہے، بھار ت میں تو وہ چار برسوں سے ایک ریفائنری پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چوالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ تو سعودی عرب پاکستان کے لیے اپنی سرمایہ کاری اور مفادات کو قربان نہیں کرے گا۔‘‘
حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ بالفرض سعودی عرب یہ کوشش کرتا بھی ہے، تو بھی نئی دہلی اسے بالکل قبول نہیں کر ے گا، ’’نئی دہلی نے ایرانی تیل پر امریکا کی حکم عدولی کی اور ایرانی بندرگاہ پر کام کرنے کے لیے استثنیٰ لیا۔ بالکل اسی طرح ایران اور افغانستان کے درمیان ایک ریلوے لائن کے لیے بھی استثنیٰ حاصل کیا۔ تو میرے خیال میں نئی دہلی ریاض کی بات کو بالکل نہیں سنے گا۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ریاض حکومت جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں اپنے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے وہ بھارت اور پاکستان میں صلح کروا کر ان جہادی تنظیموں کی افادیت کو کیوں ختم کرنا چاہے گی۔ لیکن کچھ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودی عرب ان جہادی تنظیموں کو ختم نہیں کرنا چاہتا بالکل ان کی توانائیوں کو ایران کے خلاف استعمال میں لانا چاہتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیا ل میں ریاض حکومت اپنی پوری کوشش کر ے گی کہ بھارت اور پاکستان میں کشیدگی کم ہو، ’’میرے خیال میں کشیدگی کم ہونے کی صورت میں سعودی عرب پاکستانی جہادی تنظیموں کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس کی پوری توجہ اس وقت ایران پر ہے۔ میر ے خیال میں آنے والے دنوں میں ان دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کے مابین کشیدگی کم ہوگی کیونکہ سعودی عرب چوالیس بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے تو نئی دہلی کو بھی ریاض کی بات تھوڑی بہت تو سننا پڑے گی۔ تاہم سعودی عرب یہ کشیدگی پاکستان کے مفاد کے لیے کم نہیں کرائے گا بلکہ اس کے لیے اس کے اپنے مفادات ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے حکومتی وزراء اور حکام سے کئی بار ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نہ تو ٹیلی فون کالوں کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی ان کے لیے چھوڑے گئے آڈیو پیغامات کا۔