پاک ترک اسکول: ’نہ کوئی پرنسپل نکالا گیا، نہ بند ہوئے ہیں‘
11 اگست 2016پاکستان میں کل بدھ گیارہ اگست کو ان غیر مصدقہ رپورٹوں کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، اساتذہ اور وہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات اور ان کے والدین انتہائی پریشان رہے تھے کہ پاکستان میں ایسے اٹھائیس پاک ترک اسکولوں کی انتظامیہ نے پرنسپلوں کو برطرف کر دیا ہے۔ یہ رپورٹیں بھی تھیں کہ ایسے کئی اسکولوں کے بورڈز آف ڈائریکٹرز بھی تحلیل کر دیے گئے ہیں۔
یہ میڈیا رپورٹیں اس وجہ سے پریشان کن ثابت ہوئیں کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد انقرہ حکومت کا پاکستان سے مطالبہ تھا کہ وہ اپنے ہاں ایسے تمام پاک ترک تعلیمی ادارے بند کر دیے جائیں، جن کا تعلق گولن تحریک سے ہے۔ گولن تحریک فتح اللہ گولن نامی اس ترک مسلم مبلغ کی تحریک کا نام ہے، جو امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور جنہیں ترک حکومت ملک میں ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار قرار دیتی ہے حالانکہ خود گولن اپنے خلاف ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت میں متعدد پاک ترک اسکولوں کے سربراہان نے کہا ہے کہ ایسے کسی بھی پاکستانی ترک تعلیمی ادارے کے کسی پرنسپل کو نہ تو برطرف کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی اسکول کے انتظامی بورڈ کو تحلیل کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے اسلام آباد کے چک شہزاد میں قائم پاک ترک اسکول کی بوائز برانچ کے نئے مقرر کردہ پرنسپل یاسر اقبال سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کسی کو برطرف نہیں کیا گیا، سب لوگ یہیں پر ہیں۔ یہ تقرریاں اور تبدیلیاں معمول کی باتیں ہیں۔ میں پہلے دو سال سے کیریئر کونسلر تھا، اب پرنسپل بن گیا ہوں اور اس اسکول کے سابق پرنسپل اب اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ میں قائم پاک ترک اسکول کے ڈائریکٹر بن گئے ہیں۔‘‘
یاسر اقبال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک ترک اسکول سسٹم ایک پاکستانی کمپنی ہے، جس میں ترک حکومت کا کوئی کام نہیں کہ وہ اس ادارے کے اسکولوں کو بند کرنے کی بات کرے، ’’ہم پر پاکستانی حکومت کا بھی کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ترکی میں جو بھی سیاسی حالات ہیں، ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے کہ یہ اسکول کسی بھی حالت میں بند نہیں ہونے چاہییں۔‘‘
پاک ترک اسکول کی ایک اور برانچ کے پرنسپل اور پبلک ریلیشنز آفیسر اینگی ژیگٹ (Engin Yigit) نے اسی بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان اسکولوں کے نہ تو کسی پرنسپل اور نہ ہی کسی استاد کو برطرف کیا گیا ہے بلکہ کئی افراد کو تو ترقی دے کر زیادہ بڑی ذمے داریاں سونپی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہر نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر اس مرتبہ بلا وجہ اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟‘‘
اسی دوران پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے رکن عالمگیر خان نے بھی ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ’’ہمارے اسکول سسٹم میں یہ تبدیلیاں معمول کی باتیں ہیں، ترقی ہو جانا یا نئے اسٹاف کی بھرتی۔ اہم بات یہ ہے کہ پاک ترک اسکول سسٹم کا کسی مذہبی یا سیاسی پارٹی یا تحریک سے کوئی تعلق نہیں اور یہ محض ایک ایجوکیشن سسٹم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس سال پاک ترک اسکولوں میں نیا تعلیمی سال پندرہ اگست سے شروع ہو رہا ہے اور میڈیا کو ایسی ’بے بنیاد اور غلط‘ خبریں شائع یا نشر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کرنی چاہیے۔
پاکستان میں پاک ترک اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ ہے، جو موجودہ حالات میں ابھی تک اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایسی ہی آٹھویں جماعت کی ایک طالبہ مہوش خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اپنے اسکول اور اساتذہ سے بہت لگاؤ ہے اور پاک ترک اسکولوں کے بارے میں جھوٹی خبریں اسے تکلیف پہنچاتی ہیں۔
شجاعت خان نے، جن کے چار بچے گزشتہ چند برسوں سے اسلام آباد میں پاک ترک اسکول کی ایک برانچ میں زیر تعلیم ہیں، ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پاک ترک اسکولوں کو کیوں سزا دی جا رہی ہے؟ ترک حکومت یا حکومت پاکستان کو اگر لگتا ہے کہ کسی شخص نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے، تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ لیکن ہزاروں پاکستانی خاندانوں کو کیوں پریشان کیا جا رہا ہے، یہ کہہ کر کہ ان کے بچوں کے اسکول بند کر دیے جائیں گے ،یا ان اسکولوں کے سربراہان کو نکال دیا گیا ہے۔‘‘
اس سے پہلے گزشتہ شام پاک ترک اسکول سسٹم کے اساتذہ اور بچوں کے والدین کی نمائندہ مشترکہ تنظیم کی طرف سے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ان تعلیمی اداروں کو بند نہ کرے، کیونکہ یوں قریب چودہ سو اساتذہ اور ہزارہا طالب علموں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔