پاک جرمن تعاون سے پاک افغان شہری ہم آہنگی مرکز کا افتتاح
15 فروری 2021
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں آج پیر پندرہ فروری کو جرمن اور پاکستانی حکومتوں کے تعاون سے قائم کیے گئے پاک افغان شہری ہم آہنگی مرکز کا افتتاح کر دیا گیا۔
اشتہار
یہ مرکز بنیادی طور پر ایک کمیونٹی سینٹر ہے، جسے Urban Cohesion Hub یا شہری ہم آہنگی کے مرکز کا نام دیا گیا ہے۔ یہ برلن اور اسلام آباد حکومتوں نے باہمی اشتراک عمل سے تیار کیا ہے اور اس کے ذریعے پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین میں سے راولپنڈی، اسلام آباد اور ان کے قریبی علاقوں میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں اور ان کی میزبان مقامی آبادیوں کے مابین مفاہمت، تعاون اور ہم آہنگی میں اضافہ کیا جا سکے گا۔
اس مرکز کا افتتاح آج پاکستان میں جرمنی کے سفیر بیرنہارڈ شلاگ ہیک اور پاکستان کے سرحدی امور کے وفاقی وزیر محمد محبوب سلطان نے مل کر کیا۔ اس مرکز کے قیام کے لیے پاکستان میں سرحدی امور کی وفاقی وزارت کے افغان مہاجرین کے کمشنریٹ اور برلن میں وفاقی جرمن دفتر خارجہ نے آپس میں تعاون کیا۔
'پاکستان کی طرف سے مثالی میزبانی‘
اس مرکز کے ذریعے تقریباﹰ 30 ہزار افغان مہاجرین اور ان کے میزبان پاکستانی علاقوں کی مقامی آبادیوں کے مابین صحت، تعلیم، پیشہ وارانہ تربیت، قانونی امداد اور تفریحی سرگرمیوں تک کے حوالے سے سماجی انضمام اور اشتراک عمل کی ترویج ہو سکے گی۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر محمد محبوب سلطان نے کہا، ''گزشتہ 40 برسوں سے بھی زائد عرصے سے پاکستان نے افغان مہاجرین کے حوالے سے مثالی ہمدردی، یکجہتی اور میزبانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس شہری ہم آہنگی مرکز کا قیام اس امر کا ثبوت ہے کہ جرمن حکومت کے تعاون سے پاکستان اپنے ہاں افغان مہاجرین اور ان کی میزبان مقامی آبادیوں کے مابین تعمیری تعاون کے لیے کتنا سرگرم ہے۔‘‘
اس موقع پر اسلام آباد متعینہ جرمن سفیر بیرنہارڈ شلاگ ہیک نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''اس مرکز کا قیام پاکستان اور جرمنی کے مابین کثیرالجہتی روابط اور قریبی تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی سال پاکستان اور جرمنی کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔‘‘
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
جرمن سفیر نے کہا، ''اس مرکز کے ذریعے پاکستان میں افغان مہاجرین اور ان کی میزبان مقامی سماجی برادریوں کے مابین تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی فضا کو بھی مزید خوشگوار بنایا جائے گا۔‘‘
راولپنڈی میں اس مرکز کی طرف سے مہیا کی جانے والی خدمات میں مقامی آبادیوں، حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی مشاورت بھی شامل رہے گی۔
اس منصوبے پر عمل درآمد جرمن تنظیم برائے بین الاقوامی تعاون (جی آئی زیڈ) کے منصوبے ریفیوجی مینجمنٹ سپورٹ پروگرام کاحصہ ہے۔
م م / ک م (پی آر)
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔