چینی شہر کاشغر اور گوادر کے درمیان سی پیک کے تحت بننے والی تیرہ سو کلومیٹر طویل شاہراہ دونوں ممالک کے مطابق مشترکہ طور پر فائدہ مند ہے۔ تاہم بعض پاکستانی تاجروں کے نزدیک اس سے اقتصادی فوائد صرف چین کو حاصل ہوں گے۔
اشتہار
چین کے لیے یہ دو طرفہ شاہراہ دونوں ممالک کے درمیان پھلتی پھولتی شراکت داری کی علامت ہے، جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ تاہم چین کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر بعض تاجروں کا موقف ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر محض چین کے مفاد میں کی گئی ہے۔
شاہراہ قراقرم کے قریب چینی صوبہ سنکیانگ کے شہر تاشکرگن میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجر مراد شاہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’چین کہتا ہے کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ لیکن وہ دل سے ایسا نہیں سمجھتا۔ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے صرف چین کی اپنی اقتصادی نشو و نما ہو گی۔‘‘
چین کے مغربی شہر کاشغر سے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تک تعمیر ہونے والی شاہراہ چین اور پاکستان کے درمیان اربوں ڈالر کے ’ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ‘ کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں پرانی سلک روڈ کی بحالی اور چینی کمپنیوں کو پوری دنیا میں نئی کمپنیوں سے جوڑنا شامل ہے۔
دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہے تاہم اعداد و شمار ذرا مختلف کہانی بتاتے ہیں۔ پاکستان کی چین کو برآمدات سن 2016 کے نصف تک آٹھ فیصد کم ہو چکی تھیں جبکہ درآمدات میں انتیس فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔
واشنگٹن میں سینٹرل دفاعی اور انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی ادارے سے منسلک ماہر جوناتھن ہِل مین کا کہنا ہے، ’’پاکستان کی اپنی برآمدات کے حوالے سے بہت سی امیدیں اور خواب ہیں۔ لیکن اگر آپ چین کے تناظر میں بات کریں، تو آپ کیا برآمد کرنے جا رہے ہیں؟‘‘
سنکیانگ میں پاکستانی کاروباری افراد سی پیک سے پاکستان کو کچھ زیادہ حاصل ہوتا نہیں دیکھتے۔ ان پاکستانی تاجروں کو چین میں سلامتی کے نظام اور پل پل بدلتے کسٹمز انتظامات سے بھی شکایت ہے۔
کاشغر میں ایک پاکستانی تاجر محمد نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ چین سے کچھ بھی لاتے ہیں، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم پاکستان سے درآمد شدہ اشیاء پر محصول کی بابت واضح طور پر نہیں بتایا جاتا۔ اگر آج یہ پانچ فیصد ہے تو کل بیس فیصد ہو سکتا ہے۔ کبھی تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کی اجازت ہی نہیں۔‘‘
اس پاکستانی تاجر کو امید ہے کہ سی پیک سے زندگی میں بہتری آئے گی تاہم اس کی رائے میں سخت سکیورٹی اس بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ انہوں نے کہا، ’’میں ابھی مزید قریب تین سال یہاں رہ کر حالات دیکھوں گا۔ لیکن حالات بدلنے کا لامحدود انتظار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ تو پہلے ہی واپس جا چکے ہیں۔‘‘
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔