عمر کے مطابق پاکستانی طالبان نے اس کے والد اور بھائی کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد اس نے یورپ جانے کی ٹھانی۔ وہ چھ مہینے پیدل ہی طویل مسافت طے کرتے ہوئے اپنے خوابوں کے دیس پہنچا لیکن تعبیر کچھ اچھی نہ نکلی۔
اشتہار
فرانسیسی شہر کَیلے میں مقیم پاکستانی مہاجر عمر کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چودہ میں طالبان باغیوں نے اس کے بھائی اور والد کو ہلاک کر دیا تھا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس چوبیس سالہ پاکستانی شہری نے مزید کہا کہ اس کے والد نے طالبان کو اپنا ’ایک بیٹا دینے‘ سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد ان جنگجوؤں نے اس کے والد اور بھائی کو قتل کر دیا۔
تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل
03:48
اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عمر نے کہا کہ کوئی بھی شخص بلاوجہ اپنا ملک نہیں چھوڑتا، ’’ہم پاگل نہیں کہ ہم نے اپنا ملک چھوڑ دیا۔ اگر کوئی یوں کرتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔‘‘
عمر دس دنوں میں چار مرتبہ کوشش کر چکا ہے کہ وہ کَیلے سے کسی طرح کسی ٹرک میں چھپ کر برطانیہ پہنچ جائے۔ تاہم وہ ہر بار اپنی اس کوشش میں ناکام رہا۔ اس فرانسیسی بندرگاہی شہر میں مہاجرین کی قیام کی وجہ ہی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ جائیں۔
عمر نے اپنے مہاجرت کے سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ کی پیدل مسافت کے بعد وہ مشرقی یورپ پہنچا تھا۔ اس مقصد کی خاطر وہ ایران کے دشوار گزار اور برف پوش پہاڑوں سے ہوتا ہوا بھوک اور پیاس کی حالت میں یورپ پہنچا۔ عمر کے مطابق یہ ایک انتہائی تکلیف دہ سفر تھا لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
اس پاکستانی مہاجر نے جب اپنی یہ کہانی اے پی کو سنائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ عمر نے کہا کہ جب اس کی والدہ کو علم ہوا کہ طالبان نے ان کے شوہر اور بیٹے کو ہلاک کر دیا ہے، تو انہوں نے عمر سے کہا، ’’میں نے تمہارے بھائی اور والد کو کھو دیا ہے۔ اب میں تمہیں گنوانا نہیں چاہتی۔‘‘ عمر کے بقول اس واقعے کے بعد اس نے پاکستان کو خیرباد کہنے کا ارادہ کیا اور یورپ جانے کی ٹھانی تھی۔
عمر کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح برطانیہ پہنچ جائے۔ تاہم کَیلے میں سکیورٹی حکام بہت چوکنا ہو چکے ہیں۔ اکتوبر سن دو ہزار سولہ میں ایک آپریشن کے تحت فرانسیسی حکام نے تب ’جنگل‘ کے نام سے مشہور کَیلے کے مہاجر کیمپوں کو زبردستی ختم کر دیا تھا۔
تب ان کیمپوں میں مہاجرین کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اب آہستہ آہستہ یہ مہاجرین کَیلے میں دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی کَیلے میں چھ سو تا ایک ہزار مہاجرین اپنی عارضی پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب کی خواہش برطانیہ جانا ہی ہے۔
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
تصویر: Jodi Hilton
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
تصویر: Jodi Hilton
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
تصویر: Jodi Hilton
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
تصویر: Jodi Hilton
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔