1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاگل ہیں‘: ٹرمپ کے ایک جملے سے دنیا کو اربوں ڈالر کا نقصان

11 اکتوبر 2018

حصص کی عالمی منڈیوں میں اربوں ڈالر کے فائدے یا نقصان کی وجہ بالعموم لمحوں میں آنے والی تبدیلیاں بنتی ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ بنے اور ان کے صرف ایک جملے سے عالمی معیشت اربوں ڈالر سے محروم ہو گئی۔

تصویر: Imago

امریکا میں نیو یارک سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے کی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق بدھ دس اکتوبر کی شام بنے، جب انہوں نے اپنے قطعی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے بارے میں یہ کہہ دیا، ’’یہ بینک پاگل ہو گیا ہے۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ناراضی کی وجہ فیڈرل ریزرو یا مختصراﹰ ’فَیڈ‘ کی طرف سے کیا جانے والا مرکزی شرح سود میں اضافے کا فیصلہ تھا۔ مغربی دنیا کے تقریباﹰ سبھی ممالک کے مرکزی مالیاتی اداروں کی طرح امریکا میں Fed بھی ایک خود مختار اور غیر جانبدار ادارہ ہے، جس کے فیصلوں میں واشنگٹن حکومت یا وائٹ ہاؤس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

فیڈرل ریزرو کے مرکزی شرح سود میں اضافے کے فیصلے پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت والے ملک امریکا کے صدر نے جس عدم اطمینان کا اظہار کیا، اس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کرسٹین لاگارڈ نے آج جمعرات کو یہ کہنے سے تو گریز کیا کہ صدر ٹرمپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔

واشنگٹن میں فیڈرل ریزرو کے صدر دفاتر والی مرکزی عمارتتصویر: picture alliance/Zuma Wire/C. Myers

لیکن ساتھ ہی لاگارڈ نے یہ بہرحال کہہ دیا کہ فیڈرل ریزرو کے مالیاتی ماہرین نے اپنی معمول کی ہفتہ وار مشاورت کے بعد شرح سود بڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ قابل فہم اور زمینی اقتصادی اور مالیاتی حقائق کے عین مطابق ہے۔

روایت کے منافی تبصرہ

تاہم اقتصادی گرم بازاری کی خاطر مرکزی شرح سود کم رکھنے کے حامی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ فیڈرل ریزرو پاگل ہو گیا ہے، ایسا سخت جملہ تھا جو شاید ان سے پہلے اور وہ بھی اتنے کھردرے لہجے میں پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے نہیں کہا تھا۔

اس جملے کا نقصان دوہرا تھا۔ ایک طرف تو یہ امریکی مرکزی بینک کے مالیاتی فیصلوں میں حکومت کی عدم مداخلت یا عدم تنقید کی واضح روایت کے منافی تھا اور دوسرے اس سے بین الاقوامی سٹاک مارکیٹوں میں جیسے ’پہاڑیوں سے بڑے بڑے پتھر لڑھکنا‘ شروع ہو گئے۔

صدر ٹرمپ کے اس جملے کے بعد، جسے فیڈرل ریزرو کی طاقت کی تصدیق بھی سمجھا گیا، بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اپنے شیئرز بیچتے ہوئے سٹاک مارکیٹوں سے اپنی رقوم اس لیے نکلوانا شروع کر دیں کہ بظاہر شرح سود میں اضافے کے بعد شیئرز کے بجائے نقد رقوم کی سرمایہ کاری کافی عرصے بعد پھر کچھ پرکشش دکھائی دینے لگی تھی۔

اس دوران نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں، جو دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی منڈی ہے، ڈاؤ جونز انڈکس میں 830 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ہوئی، جو 3.5 فیصد سے زائد کے مالیاتی نقصان کے برابر تھی۔ یہ نیو یارک سٹاک مارکیٹ کو اس سال فروری کے مہینے کے بعد سے اب تک ہونے والے سب سے بڑا یومیہ نقصان تھا۔

مالیاتی زلزلے کے ضمنی جھٹکے

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی۔ بدھ کی شام امریکا میں سٹاک مارکیٹوں کو خسارہ ہونے لگا تو ایشیا اور یورپ کی تجارتی منڈیاں بند ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جمعرات 11 اکتوبر کو جب مشرق بعید میں جاپان سے لے کر چین تک اور یورپ میں ترکی سے لے کر لندن تک کے بازار ہائے حصص کھلے تو وہ دن کا زیادہ تر حصہ ’امریکا میں ایک روز قبل آنے والے مالیاتی زلزلے کے ضمنی جھٹکوں کا سامنا‘ ہی کرتے رہے۔

اس وجہ سے نیو یارک کے علاوہ ٹوکیو، ہانگ کانگ، سنگاپور، سیول، شنگھائی، ممبئی، کراچی، استنبول، قاہرہ، لندن پیرس، ماسکو، میڈرڈ اور فرینکفرٹ سمیت تقریباﹰ ہر منڈی کو مندی کے رجحان کے باعث نقصان ہی برداشت کرنا پڑا۔

مجموعی طور پر عالمی معیشت کو یکدم جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: ٹرمپ کا ایک جملہ، ’فیڈرل ریزرو پاگل ہو گیا ہے‘ اور عالمی معیشت یکدم بے یقنی اور بے چینی کی فضا میں اپنے اربوں ڈالر سے محروم ہو گئی۔

م م / ش ح / اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں