سابق پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی بدھ کے روز نکالی جانے والی ریلی سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر بحث کا سبب بنی ہوئی ہے۔
اشتہار
پاکستان میں تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف کو اٹھائیس جولائی کے روز پاکستانی سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد اپنی اور اپنی جماعت کی سیاسی طاقت کا اظہار کرنے کے لیے نواز شریف نے گزشتہ روز سے ایک ریلی منعقد کر رکھی ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بدھ نو اگست کے روز جب نواز شریف اس ریلی کی قیادت کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاہور جانے کے لیے نکلے تو پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں گلے لگاکر رخصت کیا تھا۔
اس ریلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نواز شریف کے ایک حامی سابق سرکاری افسر ارشد افتخار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عوام نے مسترد کردیا یے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کے حامی صارفین بھی اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف اس مرتبہ ’عوام کا سمندر‘ جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف ’نوٹوں ہی سے اقتدار میں آتے ہیں میرٹ سے نہیں۔ انہوں نے حکومتی وسائل کا غلط استعمال کیا ہے‘۔
مقامی میڈیا کے اینکر پرسن عادل عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس ریلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شیخ رشید کا اپنے منفرد انداز میں کہا، ’’میاں صاحب آپ کی ریلی فلاپ ہوگی ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اسلام آباد سے لاہور کی جانب روانہ اس قافلے میں ہزاروں لوگ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور نواز شریف کا ’سیاسی قلعہ‘ تصور کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر نواز شریف کے خلاف چلائے جانے والے ایک ٹرینڈ میں ایک جانب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف اپنی ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں تو دوسری جانب #GTroadRally ٹرینڈ پرنواز شریف کے دفاع میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں مسلم لیگ نون ہی سیاسی جماعت ہے باقی سب پریشر گروپ ہیں‘۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔