شہباز شریف کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی قیادت سے دستبرداری کے بعد پاکستان میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ یہ فیصلہ ایک ’ڈیل‘ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے تو ساتھ ہی اسے شہباز شریف کی بگڑتی صحت کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اشتہار
شہباز شریف کا یہ فیصلہ جمعرات دو مئی کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد کئی حلقے یہ خیال کر رہے تھے کہ نواز شریف کی ضمانت میں توسیع ہوجائے گی۔ تاہم اس فیصلے کے بعد آج تین مئی جمعے کو پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے باوجود کئی حلقوں میں ایک مبینہ ’ڈیل‘ کی خبریں ابھی تک گردش میں ہیں۔
ملک میں یہ تاثر بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی ہونے والی ہے اور پارٹی میں بڑے پیمانے پر پھوٹ بھی پڑ سکتی ہے۔ ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کے خیال میں کسی ڈیل کا تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے، جس سے پارٹی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے، ’’نواز اور شہباز کے بارے میں پہلے بھی یہ تاثر تھا کہ وہ ڈیل کر لیتے ہیں اور اب شہباز کے اس فیصلے سے ڈیل کا تاثر مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ شہباز شریف ایک طرح سے پارٹی سے بھی دستبردار ہو گئے ہیں۔ مریم اور نواز بھی منظر عام پر نہیں ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی میں انتشار بڑھے گا۔ پارٹی میں پہلے ہی گروپ بندی ہے اور خواجہ آصف اور رانا تنویر پارٹی کے دو مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ ان دھڑوں میں سے کوئی حقیقی معنوں میں شریف فیملی کی جگہ لے سکے گا یا نہیں۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اس فیصلے سے ن لیگ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور پارٹی تقسیم کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’شہباز شریف کے اس فیصلے سے پارٹی حلقوں کو بہت حیرانی ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے پارٹی میں نواز شریف کے وفاداروں کو خصوصاﹰ بہت بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ اب ان کو ڈیل کے طعنے سننا پڑیں گے، جن کے خلاف دفاع ان کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ جاتے جاتے شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ رانا تنویر کو دے دی۔ خواجہ سعد رفیق کی اس سیٹ پر نظر تھی۔ پارٹی کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ شہباز شریف نے ڈیل کر لی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈیل انہوں نے صرف اپنے لیے ہی کی ہے۔ اس سے نواز شریف کو کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں شہباز شریف نے یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کوخوش کرنے کے لیے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’شہباز شریف ہمیشہ سے طاقتور حلقوں کے قریب رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور شریف فیملی کے درمیان بڑھے ہوئے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی نظر مستقبل کی وزارتِ عظمیٰ پر ہے اور اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کو کبھی ناراض نہیں کرتے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں پنجاب میں کوئی متبادل مل نہیں رہا۔ پنجاب کی سیاست میں ن لیگ اور شہباز شریف آج بھی اہم ہیں۔‘‘
پاکستان میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سے بہت ناخوش ہے اور وہ پنجاب میں کوئی متبادل ڈھونڈ رہی ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی بھی بہت تسلی بخش نہیں ہے، جس پر طاقتور حلقے پریشان ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کے ایک اہم مرکزی رہنما نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’میری اطلاعات یہ ہیں کہ طاقتور حلقے پنجاب میں تبدیلی چاہتے ہیں، اسی لیے شہباز شریف نے پی اے سی کی سربراہی سے استعفیٰ دیا اور قائد حزب اختلاف کی کرسی چھوڑنے کے بعد قوی امکان ہے کہ ان کو پنجاب میں لایا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ بار بار ڈیل کا شور مچا رہے ہیں۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کا ایسا قدم ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے گا کیونکہ میر اندازہ یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو پنجاب میں لائی تو عمران خان قومی اسمبلی کے تحلیل کیے جانے کو ترجیح دیں گے۔‘‘
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔
تصویر: T. Shahzad
5 تصاویر1 | 5
واضح رہے کہ ن لیگ کے کل ہونے والے اجلاس میں پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی، جس کا اعتراف خواجہ آصف نے بھی ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ اس اعتراف سے بھی کئی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی ہے۔ تاہم پارٹی کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر محمد جاوید عباسی اسے محض قیاس آرائی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پارٹی میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ پارٹی نواز شریف کی قیادت میں متحد کھڑی ہے۔ پارٹی نے شہباز شریف کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ انہوں نے دوسروں کے لیے جگہ بنائی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ وہ بیک وقت کئی ذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتے۔‘‘
جاوید عباسی نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پارٹی نے کوئی ڈیل کی ہے، ’’نہ پارٹی نے کوئی ڈیل کی ہے اور نہ ہی شہباز شریف ہمیشہ کے لیے لندن گئے ہیں۔ وہ بجٹ اجلاس سے پہلے واپس لوٹیں گے اور نیب کے تمام مقدمات کا سامنا کریں گے۔‘‘
ملک کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر بھی ہے کہ شہاز شریف کی طبیعت بہت خراب ہے اور ان کے کچھ میڈیکل ٹیسٹ صحیح نہیں آئے۔ اس لیے وہ آہستہ آہستہ پارٹی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ماحولیات کے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما مشاہد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ شہباز شریف کے کچھ طبی معائنوں کے نتائج اچھے نہیں رہے۔
مشاہد اللہ خان نے کہا، ’’میرے خیال میں انہوں نے یہ فیصلہ خرابی صحت کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس کا کسی مبینہ ڈیل سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی ڈیل اگر ہوئی ہوتی، تو نواز شریف کی آج ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد نہ ہوتی۔ ہم کسی ڈیل پر یقین نہیں رکھتے۔ پارٹی نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔‘‘
تعزیت کے لیے کون کون جاتی امرا گیا؟
بیگم کلثوم نواز کی آخری رسومات جمعے کے دن ادا کی جا رہی ہیں۔ جمعرات کے دن ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جاتی امرا پہنچی، جہاں انہوں نے نواز شریف اور ان کے گھر والوں سے تعزیت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Dar
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا ہجوم۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا رش۔ ملک بھر سے ہزاروں لوگ جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
آزاد کشمیر کے صدر اور وزرا بھی نواز شریف سے تعزیت کرنے جاتی امرا پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے آنے والے لوگ دعا مانگتے ہوئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جاتی عمرہ پہنچنے پر سیلفی بنوالے کے خواہش مند کارکنوں کے نرغے میں۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور بھی کے پی کے سے جاتی عمرہ تعزیت کرنے آئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جمعرات کے روز نواز شریف کے گھر کے باہر کسی قسم کی سیکورٹی نہیں تھی اور نہ ہی روایتی پروٹوکول نظر آیا۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نوز شریف کی رہائش گاہ کے باہر کافی دور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود رہیں۔