پتھراؤ سے بندوقوں تک: کشمیر میں تشدد، ہلاکتوں کا شیطانی چکر
رفعت فرید، ترال م م / ش ح
16 جولائی 2018
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کا متنازعہ اور بدامنی کا شکار خطہ کئی برسوں سے مسلسل تشدد اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ ناقدین کے مطابق نئی دہلی کی کشمیر میں ’آہنی ہاتھ کی فوجی پالیسی‘ خطے کی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف کشمیری نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کا جو احتجاج کبھی محض پتھراؤ کے ساتھ شروع ہوا تھا، اس میں اب پتھروں کی جگہ بندوقیں لی چکی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں کشمیر میں حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر اس لیے ہوتے چلے گئے کہ نئی دہلی نے پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم اور بدامنی کے شکار اس خطے کے بارے میں اپنی سخت عسکری حکمت عملی پر دوبارہ کبھی زیادہ غور ہی نہیں کیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر براہ راست یا سری نگر میں علاقائی حکومت کے ذریعے نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کس حد تک پھیل چکی ہے، اس کی ایک مثال ترال بھی ہے۔ جنوبی کشمیر میں ترال کے علاقے کو جانے والی سڑک پر سفر کریں، تو یہ بل کھاتی سڑک چاول کی فصلوں اور ٹھنڈے برفانی پانی والی کئی ندیوں کے قریب سے گزرتی ہے، جہاں افق پر ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کا نظارہ بھی انتہائی قابل دید ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران ترال تک میں بھی بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح مزاحمت بہت زور پکڑ چکی ہے۔
برہان وانی نہیں، سوچ باقی ہے
اس علاقے میں پیدا ہونے والے مشہور ترین باشندوں میں سے ایک نام برہان وانی کا بھی تھا۔ وانی کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے عسکریت پسندوں کا ایک نوجوان اور بہت مقبول کمانڈر تھا، جو دو سال قبل بھارتی سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ برہان وانی اب ترال میں نہیں رہتا لیکن سات جولائی کے روز اس کی دوسری برسی سے ایک روز قبل قدرتی حسن سے مالا مال اس دیہی علاقے کا منظر نامہ اس بات کا گواہ بھی بنا کہ سینکڑوں لوگ ترال میں وانی کے گھر پہنچ گئے۔ ان لوگوں کی آمد اس بات کا ثبوت تھی کہ برہان وانی خود تو زندہ نہیں ہے لیکن جس سوچ کے تحت اس نے ہتھیار اٹھائے تھے، وہ سوچ ابھی تک زندہ ہے اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مقامی آبادی کی سوچ بھی نہیں بدلی۔
پھر آٹھ جولائی کو جب برہان وانی کی ہلاکت کو ٹھیک دو سال ہو گئے تھے، ترال کی سڑکوں پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بکتر بند گاڑیوں سے کیے گئے اعلانات میں مقامی باشندوں کو یہ پیغام دیا جاتا رہا کہ وہ باہر نہ نکلیں اور اپنے گھروں ہی میں رہیں۔ اس کے علاوہ پورے ضلع میں نصف درجن کے قریب چیک پوسٹوں پر کڑی نگرانی کے ذریعے اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ اس روز کوئی باہر سے اس گاؤں میں داخل نہ ہونے پائے، جہاں برہان وانی کا آبائی گھر ہے۔
کشمیری عوام کی ہمدردیاں
کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مظاہرین کی طرف سے بھارتی سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ اور جواباﹰ حکومتی ڈھانچے کی طرف سے کریک ڈاؤن کے علاوہ برہان وانی کی موت بھی مقامی طور پر کشمیری نوجوانوں میں پائی جانے والی عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ بنی ہے۔ وانی کی موت کے بعد سے اب تک کے دو برسوں میں اس علاقے سے سینکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے بھاگ کر کشمیری عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ کشمیری عسکریت پسندوں کے لیے، جنہیں سری نگر اور نئی دہلی کی سرکاری زبان میں باغی کہا جاتا ہے، عوامی سطح پر پائی جانے والی ہمدردی بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسا اب کئی جگہوں پر دیکھنے میں آتا ہے کہ مقامی لوگوں کو اگر یہ پتہ چلے کہ کسی جگہ علیحدگی پسندوں کی بھارتی دستوں کے ساتھ کوئی جھڑپ ہو رہی ہے، تو وہ کسی بھی عمارت یا جگہ پر چھپے ہوئے علیحدگی پسندوں کی اس طرح مدد کرنے لگتے ہیں کہ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے وہاں پہلے سے موجود یا اضافی سکیورٹی دستوں کو عسکریت پسندوں تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
’سینکڑوں نئے عسکریت پسند‘
برہان وانی کی والدہ نے اس بارے میں چند روز قبل ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صورت حال ہر روز خراب تر ہی ہوتی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نوجوان علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ کشمیریوں سے ناانصافی ہو رہی ہے۔‘‘
برہان وانی نے 16 برس کی عمر میں کشمیری علیحدگی پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے چھ سال تک مسلح مزاحمت کرنے والے ایک نوجوان کے طور پر کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک میں حصہ لیا اور اس دوران وہ کشمیری عسکریت پسندوں کا ایک انتہائی اہم کمانڈر بن چکا تھا۔ وانی 2016ء میں جنوبی کشمیر کے بمدورہ نامی گاؤں میں بھارتی فورسز کے ساتھ ایک خونریز جھڑپ میں ہلاک ہوا تھا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں زور پکڑ لینے والی علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے دوران اب تک کم از کم بھی 44 ہزار کشمیری عسکریت پسند، بھارتی سکیورٹی اہلکار اور مقامی شہری مارے جا چکے ہیں۔ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر سے متعلق نئی دہلی میں ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آہنی ہاتھ کی جو فوجی حکمت عملی اپنا رکھی ہے، اس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہی ہوئے ہیں۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔