گرین لینڈ شارک مچھلی صدیوں تک زندہ رہ سکتی ہے تاہم آرکٹک میں گرم ہوتا موسم اس پراسرار جانور کی بقاء کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں میں گرین لینڈ شارک مچھلی طویل ترین عمر پاتی ہے۔
اشتہار
آج کل آرکٹک کے پانیوں میں اچھلتی گرین لینڈ شارک مچھیلیاں صنعتی انقلاب سے بھی کئی برس پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ صںعتی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی تغیرات کے باعث برفیلا آرکٹک بھی گرم ہوتا جا رہا ہے، جو ان قدیم نسل کی مچھیلیوں کے لیے خطرات لے آیا ہے۔
ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں میں گرین لینڈ شارک مچھلی طویل ترین عمر پاتی ہے۔ اس کی طویل عمر کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مچھلی تقریبا ڈیرھ سو برس کی عمر میں جنسی پُختگی کو پہنچتی ہے۔
بحر قطب جنوبی میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت البتہ اس مچھلی کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نہ صرف گرین لینڈ شارک کو براہ راست خطرات لاحق ہیں بلکہ اس کا قدرتی مسکن بھی تباہ ہو رہا ہے۔
سب سے بڑی، عمر میں بھی سائز میں بھی
یہ مچھلی نہ صرف طویل ترین عمر پاتی ہے بلکہ یہ اپنے سائز میں بھی حیات شارک مچھلیوں میں سب سے بڑی ہے۔ ایک بالغ سرمئی مچھلی کا وزن چودہ سو کلو گرام تک جا سکتا ہے جبکہ اس کی لمبائی چوبیس فٹ تک ہو سکتی ہے۔
اس لیے گرین لینڈ شارک کو زندہ رہنے کے لیے خوراک بھی زیادہ مقدار میں چاہیے۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کے قدرتی مسکن میں اس کی خوراک کے وسائل بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
وہ وقت دور نہیں جب سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو گا
گزشتہ نصف صدی میں ہم نے 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا ہے، جس کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں ہمارے ماحول کو تباہ کر رہی ہے۔ معاملات اسی طرح جاری رہے، تو سن 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جب پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کوئی مسئلہ نہیں تھا
سن 1950 سے 1970ء تک کی دہائیوں میں پلاسٹک کم مقدار میں بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں تھا، جتنا پلاسٹک کوڑے تک پہنچتا تھا، اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔
تصویر: Ben Curtis/AP Images/picture alliance
صنعتی ترقی اور پلاسٹک کی پیداوار تین گنا
سن 1990 کی دہائی تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اسی طرح پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بڑھا اور آہستہ آہستہ یہ ایک مسئلہ بنتا گیا۔
سن 2000 کے اوائل میں پلاسٹک کی پیداوار بے تحاشہ بڑھ چکی تھی۔ ایک دہائی میں پلاسٹک کی پیداوار اتنی بڑھی، جتنی گزشتہ چار دہائیوں میں ملا کر بھی نہیں بڑھی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
پلاسٹک کا کچرا، آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ
آج دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی مجموعی آبادی کا وزن کیا جائے، تو وہ پلاسٹک کے اس وزن سے کم ہو گا۔
تصویر: Getty Images/E. Wray
پلاسٹک: ماحول کی تباہی کا ذمہ دار
سن 1950 سے لے کر اب تک قریب 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساٹھ فیصد کو درست اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا، جس کی وجہ سے یہ پلاسٹک آج یا تو کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کی صورت میں موجود ہے یا ہمارے سمندروں، جنگلات اور ماحول کا حصہ بن کر انہیں تباہ کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Y. Chiba
سب سے زیادہ نمایاں: سگریٹ کے فلٹر
ایک تازہ سروے کے مطابق پلاسٹک کے کوڑے میں سب سے نمایاں سگرٹ کے فلٹر ہیں۔ پانی و مشروبات کی بوتلیں، بوتلوں کے ڈھکنے، کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ، شاپنگ بیگز اور اسٹرا دیگر اشیاء ہیں، جو پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا نمایاں حصہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/W. Steinberg
آبی حیات اور سمندروں کے لیے خطرہ
ہر سال آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا ہمارے سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔ سمندروں میں یہ پلاسٹک دریاؤں سے پہنچتا ہے۔ دنیا کے دس دریا، نوے فیصد پلاسٹک کا کوڑا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کا دریائے سندھ بھی ان میں شامل ہے، جس سے سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک سمندر میں پھیلتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مچھلی کم، پلاسٹک زیادہ
اگر پلاسٹک کی پیداوار اور اس سے بننے والے کچرے پر کنٹرول نہیں کیا گیا اور معاملات اسی طرح جاری رہے، تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
8 تصاویر1 | 8
ماہر حیوانیات نے طویل تحقیق کے بعد ان مچھلیوں کی بقاء کا لاحق ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک طویل عرصے تک اس جانور کے بارے میں مناسب معلومات جمع نہیں ہو سکی تھیں۔
سن 2016 میں اس مچھلی کی آنکھوں کے عمیق مطالعے کے بعد انکشاف کیا گیا تھا کہ اس کی عمر غیر معمولی طور پر طویل ہوتی ہے۔
ان مچھلیوں پر تحقیق کے دوران پانچ میٹر لمبی ایک مادہ گرین لینڈ شارک کی عمر کے بارے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ وہ صنعتی انقلاب سے پہلے سن 1504ء اور 1744ء کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔
اشتہار
ماحولیاتی تبدیلیاں اس مچھلی کے لیے زہر قاتل
بجلی کی ایجاد سے قبل اس مچھلی کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جاتا تھا۔ تب اس کے جگر سے حاصل ہونے والا تیل چراغوں اور مشعلوں کو روشن کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اگرچہ اس دور میں ہزاروں سرمئی مچھلیاں انسانی رات کو روشن کرنے کی کوشش میں ہلاک کر دی گئیں تھیں لیکن پھر بھی یہ ناپید نہیں ہوئی تھیں۔
اب آرکٹک کا بڑھتا درجہ حرارت برف کو پگھلانے اور پانی کو گرم کرنے کا باعث بن رہا ہے، جو اس مچھلی کی نسل کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے آرکٹک کے راستے کھلیں گے تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس برفیلے ریجن میں وسائل کی تلاش میں نکلیں گے، جس کے نتیجے میں اس نسل کے علاوہ وہاں کے مقامی دیگر جانوروں کا قدرتی مسکن تباہ ہو سکتا ہے اور نتیجتا یہ جانور ناپید ہوتے جائیں گے۔
دیگر جانداروں کے مقابلے میں گرین لینڈ شارک مچھلیاں اس لیے بھی زیادہ خطرے کا شکار ہیں کیونکہ ان میں جنسی و تولیدی عمل کا آغاز ایک طویل عمر کے بعد ہوتا ہے۔ اگر زیادہ تر بالغ سرمئی شارک مچھلیاں مر گئیں تو ان کے بچوں کے بڑا ہونے تک اس ریجن کا حیاتیاتی تنوع بھی شدید متاثر ہو جائے گا۔
روبی رسل (ع ب، ا ا)
جانور اپنا علاج خود ہی کیسے کرتے ہیں
زخموں کے علاج کے لیے کیڑوں کا استعمال ہو یا پھر نشے کی کیفیت میں جانے کے لیے پفر مچھلیوں کا، جانور بہتر محسوس کرنے کے لیے قدرت کے رازوں سے واقف ہیں۔ ہم انسانوں نے بھی ان سے کچھ طریقے سیکھے ہیں۔ تفصیلات اس پکچر گیلری
تصویر: Tobias Deschne/Ozouga
’زو فارما کوگنوسی‘ کا جادو
بیمار ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ جانور بھی یہی سمجھتے ہیں۔ بہت سے مختلف جانور اپنے زخموں سے چھٹکارا پانے یا طفیلی کیڑوں یا جراثیم سے چھٹکارا پانے کے لیے فطرت میں موجود قدرتی تریاق کا استعمال کرتے ہیں۔ جانوروں کا خود کو خود سے ٹھیک کرنے کے عمل کو ’زو فارما کوگنوسی‘ کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں محققین نے افریقی ملک گبون میں مشاہدہ کیا کہ چیمپینزی کس طرح اپنے زخموں کا علاج کرتے ہیں۔
تصویر: Wegner/imageBROKER/picture alliance
کیڑوں میں شفا کی صلاحیت
محققین نے لوانگو نیشنل پارک میں مشاہدہ کیا کہ چیمپینزیوں نے ہوا سے کیڑوں کو پکڑا، انہیں اپنے ہونٹوں کے درمیان پیسا اور پھر انہیں اپنے کھلے زخموں پر لگا دیا۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ اس طرح نہ صرف اپنے زخموں کا بلکہ دوسرے چمپینزیوں کے زخموں کا بھی علاج کرتے دیکھے گئے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ مخلوق سماجی رویے رکھتی ہے جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچ سکے۔
تصویر: Tobias Deschne/Ozouga
ریچھوں سے سیکھا گیا علاج
امریکی سیاہ ریچھ اوشا نامی پودے کی جڑوں میں شفایابی کی طاقت جانتے ہیں۔ ماہر طبیعات شان سیگسٹیٹ جنہوں نے نیو میکسیکو کے شمالی حصے میں جانوروں کا مشاہدہ کیا کہ یہ ریچھ جوڑوں کی سوزش یا آرتھرائٹس کی تکلیف کے علاج کے لیے ان جڑوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ کئی صدیاں قبل ریچھوں کو اس پودے کی جڑیں استعمال کرتے دیکھ کر اس کی شفایابی کی صلاحیت سے متعارف ہوئے۔
تصویر: Tony Hamblin/FLPA/imageBROKER/picture alliance
کتے اپنا علاج کیسے کرتے ہیں
اگر آپ نے کبھی کتا پالا ہے تو آپ نے ان کے اپنا علاج کرنے کا مشاہدہ بھی کیا ہو گا۔ کتوں کا جب پیٹ گڑ بڑ ہو تو وہ گھاس کھاتے ہیں۔ وہ عام طور پر الٹی کر کے اس نکال دیتے ہیں یا پھر یہ گھاس ہضم ہوئے بنا جلد ہی ان کے پاخانے سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ گھاس ان کے لیے پیراسائٹس یا نقصان دہ جراثیم سے نجات پانے کا طریقہ ہے۔
تصویر: Valentyn Semenov/Zoonar/picture alliance
فارمک ایسڈ میں پرندوں کا غسل
ریسرچر اس بات سے آگاہ ہیں کہ پرندوں کی 200 سے زائد اقسام ایسی ہیں، جو چیونٹیوں کی رہائش پر بیٹھتی ہیں اور اپنے پروں سے غسل کرنے جیسی حرکات کرتے ہیں تاکہ چیونٹیاں ان سے چمٹ جائیں۔ اس طریقے کو ’اینٹنگ‘ کہا جاتا ہے اور اس میں پرندے فارمک ایسڈ کے ذریعے اپنے پروں کو انتہائی چھوٹے نقصان دہ کیڑوں، فنگس اور بیکٹیریا وغیرہ سے پاک کرتے ہیں۔
تصویر: Wolfram Steinberg/dpa/picture alliance
پیدائش سے قبل چھال چبانا
مڈغاسکر کے لیمور نامی مادہ حاملہ بندر انجیر اور املی کے درختوں کی چھال یا پتے چباتی ہیں۔ ان میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو لیمور میں دودھ کی پیداوار بڑھاتے ہیں، جراثیم وغیرہ کو مارتے ہیں اور بچے کی پیدائش کے عمل کو سہل بناتے ہیں۔
تصویر: CC/twinxamot
ولادت کے عمل کو قدرتی طریقے سے سہل بنانا
ہاتھی 22 ماہ کے حمل کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے۔ یہ کسی بھی جانور کا طویل ترین عرصہ ہے۔ کینیا میں حمل کے آخری عرصے میں ہتھنیاں اپنے معمول کے راستوں کو چھوڑ کر ایسے راستے اختیار کرتی ہیں جہاں وہ بروجینیسیائی یا نیلے پھولوں والے پودوں کی قسم کے درختوں کے پتے کھاتی ہیں جس کے کچھ وقت بعد وہ بچے کو جنم دیتی ہیں۔ کینیا کی خواتین بھی ان پتوں کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
تصویر: dapd
مشرومز یا کھمبیوں سے نشہ
جانور خود سے علاج کے علاوہ نشے کے لیے بھی قدرت سے رجوع کرتے ہیں۔ فِن لینڈ اور سائبیریا کے رینڈیئر اس مقصد کے لیے امانیتا مسکاریا نامی مشرومز کھاتے ہیں۔
تصویر: Kobalt
پفر مچھلی کے ذریعے نشے کے کیفیت
ایک ڈاکومینٹری کی ریکارڈنگ کے دوران محققین نے ڈولفن مچھلیوں کو پفر مچھلیوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا۔ وہ ان مچھلیوں کو نصف گھنٹے تک ایک دوسرے کی طرف پھینکتیں اور ہوا میں اچھالتیں جس کے بعد پفر مچھلیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ پفر مچھلیاں شدید دباؤ میں ایک زہریلا مادہ خارج کرتی ہیں جس سے ڈولفن مچھلیاں نشے کی کیفیت میں چلی جاتی ہیں۔
تصویر: Augusto Leandro Stanzani/Ardea/imago images