1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تحفظ خوراکیورپ

پراسرار گرین لینڈ شارک کو لاحق نئے خطرات

24 جولائی 2022

گرین لینڈ شارک مچھلی صدیوں تک زندہ رہ سکتی ہے تاہم آرکٹک میں گرم ہوتا موسم اس پراسرار جانور کی بقاء کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں میں گرین لینڈ شارک مچھلی طویل ترین عمر پاتی ہے۔

Grönlandhai | Somniosus microcephalus
تصویر: Saul Gonor/Oceans Image/Photoshot/picture alliance

آج کل آرکٹک کے پانیوں میں اچھلتی گرین لینڈ شارک مچھیلیاں صنعتی انقلاب سے بھی کئی برس پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ صںعتی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی تغیرات کے باعث برفیلا آرکٹک بھی گرم ہوتا جا رہا ہے، جو ان قدیم نسل کی مچھیلیوں کے لیے خطرات لے آیا ہے۔

ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں میں گرین لینڈ شارک مچھلی طویل ترین عمر پاتی ہے۔ اس کی طویل عمر کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مچھلی تقریبا ڈیرھ سو برس کی عمر میں جنسی پُختگی کو پہنچتی ہے۔

بحر قطب جنوبی میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت البتہ اس مچھلی کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نہ صرف گرین لینڈ شارک کو براہ راست خطرات لاحق ہیں بلکہ اس کا قدرتی مسکن بھی تباہ ہو رہا ہے۔

سب سے بڑی، عمر میں بھی سائز میں بھی

یہ مچھلی نہ صرف طویل ترین عم‍ر پاتی ہے بلکہ یہ اپنے سائز میں بھی حیات شارک مچھلیوں میں سب سے بڑی ہے۔ ایک بالغ سرمئی مچھلی کا وزن چودہ سو کلو گرام تک جا سکتا ہے جبکہ اس کی لمبائی چوبیس فٹ تک ہو سکتی ہے۔

اس لیے گرین لینڈ شارک کو زندہ رہنے کے لیے خوراک بھی زیادہ مقدار میں چاہیے۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کے قدرتی مسکن میں اس کی خوراک کے وسائل بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ماہر حیوانیات نے طویل تحقیق کے بعد ان مچھلیوں کی بقاء کا لاحق ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک طویل عرصے تک اس جانور کے بارے میں مناسب معلومات جمع نہیں ہو سکی تھیں۔

سن 2016 میں اس مچھلی کی آنکھوں کے عمیق مطالعے کے بعد انکشاف کیا گیا تھا کہ اس کی عمر غیر معمولی طور پر طویل ہوتی ہے۔

ان مچھلیوں پر تحقیق کے دوران پانچ میٹر لمبی ایک مادہ گرین لینڈ شارک کی عمر کے بارے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ وہ صنعتی انقلاب سے پہلے سن 1504ء اور 1744ء کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔

ماحولیاتی تبدیلیاں اس مچھلی کے لیے زہر قاتل

بجلی کی ایجاد سے قبل اس مچھلی کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جاتا تھا۔ تب اس کے جگر سے حاصل ہونے والا تیل چراغوں اور مشعلوں کو روشن کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

اگرچہ اس دور میں ہزاروں سرمئی مچھلیاں انسانی رات کو روشن کرنے کی کوشش میں ہلاک کر دی گئیں تھیں لیکن پھر بھی یہ ناپید نہیں ہوئی تھیں۔

اب آرکٹک کا بڑھتا درجہ حرارت برف کو پگھلانے اور پانی کو گرم کرنے کا باعث بن رہا ہے، جو اس مچھلی کی نسل کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے آرکٹک کے راستے کھلیں گے تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس برفیلے ریجن میں وسائل کی تلاش میں نکلیں گے، جس کے نتیجے میں اس نسل کے علاوہ وہاں کے مقامی دیگر جانوروں کا قدرتی مسکن تباہ ہو سکتا ہے اور نتیجتا یہ جانور ناپید ہوتے جائیں گے۔

دیگر جانداروں کے مقابلے میں گرین لینڈ شارک مچھلیاں اس لیے بھی زیادہ خطرے کا شکار ہیں کیونکہ ان میں جنسی و تولیدی عمل کا آغاز ایک طویل عمر کے بعد ہوتا ہے۔ اگر زیادہ تر بالغ سرمئی شارک مچھلیاں مر گئیں تو ان کے بچوں کے بڑا ہونے تک اس ریجن کا حیاتیاتی تنوع بھی شدید متاثر ہو جائے گا۔

روبی رسل (ع ب، ا ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں