پرانے کمبل سردیوں کے لباس میں تبدیل
5 فروری 2017یونان کے شمالی شہر سالونیکی میں ایک چھوٹی سی ورک شاپ کے ذریعے اس امدادی ادارے سے وابستہ رضاکار گھنٹوں محنت کر کے سلائی کی مشینوں کا استعمال کرتے اور پرانے کمبلوں سے جاڑے کے ملبوسات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس ادارے کے مطابق اس کام سے یقیناﹰ یونان میں شدید سردی سے دوچار تمام مہاجرین کی مدد ممکن نہیں، مگر اپنے حصے کا کام ضروری کیا جا سکے گا۔
غیرکارآمد کمبلوں سے جیکٹیں، اوورکوٹ اور جاڑے کے دیگر ملبوسات کی تیاری میں مصروف رضاکار ایک مسلسل چیلنج سے نبردآزما ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان پرانے کمبلوں، خصوصاﹰ فوج کے زیراستعمال رہنے والے سرمئی رنگ کے کپڑے سے بنے ان کمبلوں کی بہت بڑی کھیپ موجود ہے۔ امدادی ادارے کے مطابق مقدونیہ کی سرحد کے قریب اڈومینی کے علاقے میں خیمہ بستی ختم کرائی گئی، تو وہاں بہت بڑی تعداد میں کمبل باقی رہ گئے، جنہیں اب استعمال کیا جا رہا ہے۔
بلقان ریاستوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش کے بعد اڈومینی کے علاقے میں قریب 14 ہزار افراد خیمہ بستیوں میں مقیم ہو گئے تھے، تاہم گزشتہ برس مئی میں یونانی پولیس نے یہ مہاجر بستی ختم کر دی اور یہاں سے جانے والے تارکین وطن اپنے پیچھے بڑی تعداد میں کمبل چھوڑ گئے، جنہیں ایک امدادی تنظیم دوبارہ استعمال میں لا رہی ہے۔
یہ پروجیکٹ جرمن یونانی امدادی تنظیم ناؤمی کے تحت چل رہا ہے، جو یہ پرانے کمبل جمع کرتی ہے، انہیں دھویا جاتا ہے اور پھر ان سے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔
اس پروجیکٹ کی منتظم ایلکے وولشلاگر ان پرانے کمبلوں سے عمدہ کوٹ تیار کرواتی ہیں اور ہر کورٹ میں اندر کی جانب ایک چِٹ لگی ہوتی ہے، جس پر تحریر ہوتا ہے، ’ریممبر اڈومینی‘ یا ’اڈومینی کو یاد رکھیے‘۔ وولشلاگر کا کہنا ہے، ’’جو پچھلے برس اڈومینی میں ہوا، ہم لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ نے سرحدیں بند کر کے مہاجرین اور یونانی عوام کے ساتھ کیا کیا اور کس طرح ہزاروں افراد یہاں پھنس کہ رہ گئے۔‘‘
یونانی حکومت کے مطابق گزشتہ برس بلقان خطے میں سرحدوں کی بندش کے بعد سے ملک میں ساٹھ ہزار مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں اور ان میں سے متعدد اس وقت مختلف خیمہ بستیوں میں شدید سردی کا مقابلہ کر رہے ہیں، جب کہ متعدد مقامات پر ہر شب درجہء حرارت نقطہء انجماد سے کئی درجے نیچے ہوتا ہے۔