1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پراپیگنڈا مہم کے خلاف ٹاسک فورس، ’حکومت مدعی بھی منصف بھی‘

عثمان چیمہ
2 دسمبر 2024

‌مشترکہ ٹاسک فورس کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران ریاست مخالف پراپیگنڈا کرنے والوں کی نشاندہی کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ جن کے خلاف شکایات ہیں، انہیں ہی منصف بنا دیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ریاست کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈا کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے دس رکنی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی
وزیراعظم شہباز شریف نے ریاست کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈا کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے دس رکنی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دیتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

وزیراعظم شہباز شریف نے ریاست کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈا کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے دس رکنی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ اس نو تشکیل کردہ ٹاسک فورس کی سربراہی چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں  آئی ایس آئی، ایم آئی، انٹیلیجنس بیورو کے نمائندے، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر، اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی، آئی ٹی ڈائریکٹر (وزارتِ آئی ٹی) اور وزارتِ داخلہ و اطلاعات کے جوائنٹ سیکریٹریز شامل ہیں۔

یہ ٹاسک فورس ان انفرادی گروہوں، میڈیا گروپس اور تنظیموں کی نشاندہی کرے گی، جو جھوٹی اور گمراہ کن خبریں پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد ملکی اور غیر ملکی میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے ریاستی اداروں پر سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانے کے لیے من گھڑت، بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کو بزور طاقت ختم کرانے پر حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''یہ مہم ملک میں امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا کرنے اور مخصوص سیاسی مفادات کے لیے صوبائی اور نسلی تقسیم کو ہوا دینے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔‘‘

’جن سے شکایت وہی منصف‘

یہ جوائنٹ ٹاسک فورس 24 سے 27 نومبر تک  اسلام آباد میں کیے گئے پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرے گی اور دس روز میں اپنی سفارشات مرتب کر کےحکومت کو پیش کرے گی۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ اس ٹاسک فورس کی تشکیل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بھی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم دیکھیں گے کہ ٹاسک فورس دس دن میں کیا پیش کرتی ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت صحافیوں کو اس کمیٹی کے ذریعے ڈرا نہیں سکتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ ٹاسک فورس پولیس کے پی ٹی آئی پر حالیہ کریک ڈائون کے بعد بنائی گئی ہے اور صحافی اور میڈیا گروپس نے دونوں اطراف کے موقف کو کور کیا ہے تو اس میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کون کرے گا۔‘‘

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر طویل عرصے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور صحافی اپنے نجی حلقوں، ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پر اس بارے مین بحث ومباحثہ کرتے رہتے ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر سیاستدان، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر کھل کر بحث کرتے ہیں۔

کاظم خان، چیئرمین فری میڈیا کمیٹی برائے کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز کا کہنا ہے، ''ٹاسک فورس میں شامل ادارے وہی ہیں جن کے بارے میں معاشرہ آزادیِ اظہار پر پابندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تخفظات کا شکار ہے۔ اب یہی ادارے یہ فیصلہ کریں گے کہ کون سی خبر جھوٹی ہے، یہ حیران کن اور خطرناک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''اگر حکومت واقعی جھوٹی خبروں کا خاتمہ چاہتی ہے تو سچ بولنا شروع کر دے کیونکہ سچ ہی جھوٹ کو مٹا سکتا ہے۔‘‘

حکومت کا دعویٰ ہے کہ آزادی اظہار کی ا‌ٓڑ میں ریاست مخالف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہےتصویر: Irtisham Ahmed/AP Photo/picture alliance

حکومت اور جھوٹی خبریں

کاظم خان نے سوال اٹھایا کہ حکومت خود کتنا سچ بولتی ہے؟ انہوں نے کہا، ''حال ہی میں حکومت نے ایک سینئر صحافی مطیع اللہ جان پر منشیات فروشی کا جھوٹا مقدمہ دائر کیا، جس کی وجہ سے ہمیں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، صحافیوں کو سچ بولنے پر مقدمات اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس پر بھی ایک ٹاسک فورس بننی چاہیے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت  کا موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی ہلاکتوں کے حوالے سے الزامات پر صحافیوں پر جھوٹ پھیلانے کا الزام لگانا بے بنیاد ہے کیونکہ حکومت خود حقیقت چھپا رہی ہے۔

موجودہ تنازعہ اور ٹاسک فورس

یہ جائنٹ ٹاسک فورس ایک ایسے وقت قائم کی گئی ہے، جب ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران حکومتی حکمت عملی پر بحث جاری ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی کارروائی میں اس کے کارکنان ہلاک ہوئے، جبکہ حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں نے ان ہلاکتوں کی تصدیق پر مبنی رپورٹس شائع کی ہیں۔

نسیم زہرہ نے کہا،''حکومت صحافیوں کو اس بات پر کیسے موردِ الزام ٹھہرا سکتی ہے کہ وہ حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ کر رہے تھے؟‘‘

غیر واضح دائرہ اختیار

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ٹاسک فورس کے اختیارات مبہم ہیں۔ کاظم خان نے سوال اٹھایا، ''کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی خبر جھوٹی ہے اور کون سی درست؟ اس طرح سے سچ کا بول بالا نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہتکِ عزت کے قانون کو مزید مضبوط کرے کیونکہ جھوٹ ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے۔ جب بات ہتکِ عزت کی آئے گی تو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حکومت پر بھی ہتکِ عزت کے تحت مقدمات ہو سکتے ہیں۔‘‘

صحافی اور یو ٹیوبر مطیع اللہ جان تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ماہرین اکثر حکومتی احکامات اور قوانین میں استعمال ہونے والی غیر واضح اصطلاحات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ انسداد دہشتگردی (ترمیمی) بل 2024 میں بھی ایسے الفاظ شامل کیے گئے ہیں، جنہیں ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس بل میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ حکومتی سکیورٹی ادارے کسی بھی فرد کو اس کے کسی دہشت گرد تنظیم یا مشتبہ شخص کے ساتھ رابطے کے معقول شک کی بنیاد پر نوے دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق حکومتیں قانون سازی کرتے ہوئے اس نوعیت کی مبہم لفاظی اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 

سوشل میڈیا پرجھوٹ کا پھیلاؤ کیسے روکا جائے؟

کاظم خان سوشل میڈیا پر جھوٹ کے فروغ کوبھی تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک سے معاہدے کرے اور ان سے کہے کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر کھولیں اور ان سے شرائط بھی طے کرے۔

انہوں نے کہا، ''حکومت صرف ٹاسک فورس بنانے سے سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتی کیونکہ تمام الزامات کسی بھی معاشرے میں عدالت کے ذریعے ثابت کرنے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر کوئی ٹویٹ کرکے ڈیلیٹ کر دے تو وہ اس پلیٹ فارم کی سپورٹ کے بغیر ثابت نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے معاہدے ضروری ہیں۔‘‘

حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا ختم

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں