پراگ اسپرنگ، جسے سابقہ سوویت یونین کے ٹینکوں نے کچل دیا تھا
عابد حسین این ولووبائی
5 جنوری 2018
پانچ جنوری سن 1968 کو اُس وقت کے ملک چیکوسلوواکیہ میں ایک نئے لیڈر نے لبرل پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ لبرل پالیسی اس وقت سوویت یونین کو پسند نہ آئی اور تقریباً چھ ماہ بعد اس پر کمیونسٹ ملکوں کے ٹینک چڑھ دوڑے۔
اشتہار
الیگزانڈر ڈُوبچیک نے تحلیل ہو جانے والے یورپی ملک چیکوسلوواکیہ کی سربراہی پچاس برس قبل پانچ جنوری کو سنبھالی تھی۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی سخت گیر پالیسیوں کو نرم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مطلق العنانیت کی جگہ جمہوری اور قدرے آزاد پالیسیوں کو متعارف کرانے کو چیکو سلواکیہ میں ’پراگ اسپرنگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سابقہ کمیونسٹ ملک چیکوسلوواکیہ کا وجود اب تاریخ کے صفحات میں تو موجود ہے لیکن حقیقت میں ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ دو نئے ملک سامنے آ چکے ہیں۔
سلاوک رہنما الیگزانڈر ڈُوبچیک کی جانب سے سابقہ چیکوسلوواکیہ میں متعارف کرائے جانے والے لبرل رویے کو سابقہ سوویت یونین نے پسند نہیں کیا۔ وقتاً فوقتاﹰ تنقید اور سرزنش کے باوجود ڈُوبچیک نے اپنی ڈگر تبدیل نہ کی۔ ان پالیسیوں کو وارسا پیکٹ کے منافی تصور کیا گیا۔
سرد جنگ کے دور میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مقابلے پر کمیونسٹ ملکوں کا اتحاد اور تنظیم وارسا پیکٹ کہلاتی تھی۔
بیس اور اکیس اگست سن 1968 کی درمیانی شب میں کمیونسٹ ملکوں کے تنظیم کے ٹینک اور ہزارہا فوجی سابقہ چیکوسلوواکیہ میں داخل ہو گئے اور ’پراگ اسپرنگ‘ کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔
وارسا پیکٹ کے ممالک سابقہ سوویت یونین، بلغاریہ، ہنگری، سابقہ مشرقی جرمنی اور پولینڈ کے ڈھائی لاکھ سے زائد فوجی پراگ کی سڑکوں پر مارچ پاسٹ کرتے ہوئے داخل ہوئے تھے۔ اس فوج کشی نے ڈُوبچیک کی عملداری کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔ فوج کشی کے فوری بعد انہوں نے اپنے منصب سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق وہ تقریباً آٹھ ماہ تک وارسا پیکٹ کے رکن ملکوں اور خاص طور پر سابقہ سوویت یونین کے ساتھ بحث و تمحیص جاری رکھے رہے اور جب وہ اس وقت سوویت یونین کی قیادت کو قائل نہ کر سکے تو وہ سترہ اپریل سن 1969 کو چیکوسلوواکیہ کی حکمران سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے علیحدہ ہو گئے۔
جو کام سن 1968 میں الیگزانڈر ڈُوبچیک نہیں کر سکے تھے، تقریباً بیس برس بعد سن 1989 میں چیکوسلوواکیہ کے عوام نے کمیونسٹ کنٹرول کی بیڑیاں توڑنے کی عملی جد و جہد شروع کر دی۔ سب سے دچسپ بات تھی کہ الیگزانڈر ڈُوبچیک، اُس وقت ابھی زندہ تھے اور انہوں نے لبرل پالیسیوں کا جو بیج بویا تھا وہ بیس برس بعد ایک طوفان بن کر اٹھ گیا تھا۔
سن 1989 کے عوامی انقلاب کو سابقہ چیکوسلوواکیہ میں ’ویلوٹ انقلاب‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈُوبچیک پراگ کے مرکزی چوک وینسیسلس اسکوائر میں چوبیس نومبر سن 1989 کے اس عظیم الشان عوامی اجتماع میں بھی شریک تھے، جس نے کمیونسٹ حکومت کو ختم کر دیا تھا۔
اس کمیونسٹ حکومت کے خاتمے پر ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں چیکوسوواکیہ بھی دو ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک ریاست اب چیک جمہوریہ اور دوسری سلوواکیا کہلاتی ہے۔ ان کا قیام یکم جنوری سن 1993 کو عمل میں آیا تھا۔ الیگزانڈر ڈُوبچیک بعد میں سلوواکیا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بن گئے تھے۔
جرمنی میں کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی یادگاریں
کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز دونوں کو بابائے سوشلزم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں یہ دونوں شخصیات متنازعہ تصور کی جاتی ہیں تاہم پھر بھی مختلف جرمن شہروں میں ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB
چین سے ایک تحفہ
کارل مارکس کی پیدائش جرمن شہر ٹریئر میں ہوئی تھی اور آئندہ برس اُن کا دو سوواں یومِ پیدائش منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر چین نے ٹریئر شہر کو مارکس کا 6.3 میٹر (بیس فٹ) سائز کا ایک مجسمہ بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ طویل بحث مباحثے کے بعد سٹی کونسل نے اس تحفے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لکڑی کے اس مجسمے (تصویر) کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اصل مجسمہ کیسا ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
مارکس ایک تاریخی شخصیت
جرمن شہر ٹریئر میں 2013ء میں کارل مارکس کی ایک سو تیس ویں برسی منائی گئی تھی۔ تب جرمن فنکار اوٹمار ہوئرل کی جانب سے ٹریئر کے تاریخی مقام پورٹا نیگرا کے سامنے مارکس کے پانچ سو مجسمے نصب کیے گئے تھے، جو پلاسٹک سے بنے ہوئے تھے۔ ان مجسموں کے ذریعے اس فنکار کا مقصد یہ تھا کہ لوگ مارکس کی تاریخی شخصیت اور اُن کی شاہکار تصنیفات پر نئے سرے سے بحث مباحثہ شروع کریں۔
تصویر: Hannelore Foerster/Getty Images
سوچ میں ڈُوبے فریڈرش اینگلز
مارکس کے ساتھ ساتھ فریڈرش اینگلز کو بھی کمیونزم کا ایک بڑا فلسفی مانا جاتا ہے۔ اُن کا تانبے سے تیار کیا گیا چار میٹر سائز کا یہ مجسمہ اُن کے آبائی جرمن شہر وُوپرٹال میں نصب ہے۔ چینی حکومت نے ایک چینی فنکار کا بنایا ہوا یہ مجسمہ 2014ء میں وُوپرٹال شہر کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اینگلز کا یہ مجسمہ سائز میں ٹریئر شہر میں کارل مارکس کے مجوزہ مجسمے سے چھوٹا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
روحانی بھائی
1848ء میں شائع ہونے والی تصنیف ’کمیونسٹ منشور‘ کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی مشترکہ کاوِش تھی۔ یہ تصویر ان دونوں کے برلن میں نصب مجسموں کی ہے۔ سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے ایماء پر 1986ء میں تیار کردہ ان مجسموں کا مقصد بابائے کمیونزم تصور کیے جانے والے ان فلسفیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ نئے سرے سے نصب کردہ ان دونوں مجسموں کا رُخ اب مشرق کی بجائے مغرب کی جانب ہے۔
تصویر: AP
مارکس کا بہت بڑا مجسمہ
کارل مارکس کا ایک بہت بڑے سائز کا یہ مجسمہ مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں ہے۔ 1953ء سے لے کر 1990ء تک اس شہر کا نام ’کارل مارکس سٹی‘ ہوا کرتا تھا۔ تیرہ میٹر سائز کا یہ مجسمہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا مسجسمہ ہے۔ اس مجسمے کے پیچھے دیوار پر چار زبانوں جرمن، انگریزی، روسی اور فرانسیسی میں ’کیمونسٹ منشور‘ کا مشہور جملہ ’دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ‘ درج ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/Schoening
بسمارک کی بجائےمارکس
مشرقی جرمن شہر فرسٹن والڈے کی اس یادگاری تختی پر کسی زمانے میں جرمن سلطنت کے پہلے چانسلر اوٹو فان بسمارک کی شبیہ ہوا کرتی تھی۔ 1945ء میں اُن کی جگہ کارل مارکس کی شبیہ نصب کر دی گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے فوراً بعد تانبے کی یہ تختی چوری ہو گئی تھی۔ 2003ء میں کافی بحث مباحثے کے بعد بالآخر سٹی کونسل نے بسمارک کی بجائے مارکس ہی کی نئی تختی لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Pleul
ایک اور متنازعہ مجسمہ
یہ مجسمہ تیس سال تک مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں یونیورسٹی کے مرکزی داخلی دروازے کے باہر نصب رہا۔ سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمن دور میں لائپسگ یونیورسٹی کارل مارکس یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ 2006ء میں تعمیر و مرمت کے دوران اس مجسمے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اسے نصب نہ کیا جائے۔ بالآخر ایک وضاحتی تحریر کے ساتھ اسے یونیورسٹی کے ژاہن الے کیمپس کے باہر نصب کر دیا گیا۔