پرتگال، شامی مہاجرین کے پکائے کھانے مقامی لوگوں میں مقبول
صائمہ حیدر
16 اکتوبر 2017
پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں شامی مہاجرین کے ایک ریسٹورنٹ کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں شامی کھانوں کے لیے لوگوں کی پسندیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ریستوران اس ملک میں ان پناہ گزینوں کے انضمام کا احسن ذریعہ بھی ہے۔
اشتہار
پرتگال کے دارالحکومت کے پڑوس میں مقبول علاقے آری یوس میں ’میزے‘ نامی یہ ریستوران شامی مہاجرین چلا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اس ریستوران کا افتتاح ہونے کے بعد جو گاہک یہاں آئے ہیں اُن میں لیونور روڈرِگ بھی ایک ہیں۔ روڈرِگ کو یہاں کا ماحول اور مزےدار کھانے بہت پسند آئے ہیں۔
روڈرِگ نے مترجم کے ذریعے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ چکن کباب، حمس سب کچھ شاندار تھا۔ میں یقینی طور پر آئندہ ہفتے بھی یہاں آؤں گا۔ یہ جگہ زبردست ہے اور مہاجرین کو پرتگالی معاشرے میں ضم کرنے کا یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔‘‘
یہ ریستوران ایک پینتالیس سالہ سابق پرتگالی صحافی فرانسیسا گورژاؤ کی سن 2016 میں مہاجرین کی مدد کے لیے قائم کی گئی تنظیم’ پاؤ آ پاؤ‘ کے تحت اٹھائے گئے اقدام کا نتیجہ ہے۔ فنڈ اکٹھا کرنے کی اس مہم میں گورجاؤ نے قریب تئیس ہزار یورو جمع کیے تھے۔
گورژاؤ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ میں نے جیسے ہی شامی مہاجرین کی مدد کے لیے ریستوران بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا، لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔‘‘
ریستوران میں درجن بھر شامی تارکین وطن ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے ایک اکیس سالہ شامی پناہ گزین رفعت کا ماننا ہے کہ شام سے ہجرت کرتے وقت پرتگال اُس کی محبوب منزل نہیں تھا لیکن اب وہ یہاں بہت خوش ہے۔ وہ اپنی دو بہنوں اور والدہ کے ساتھ یہاں رہتا ہے۔ رفعت نے اے ایف پی کو بتایا،’’ ہم یہاں بہت خوش ہیں۔ پرتگالی بہت روادار لوگ ہیں اور ہمیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ میری دونوں بہنیں حجاب کے ساتھ ساحل سمندر پر جاتی ہیں اور انہیں کوئی پریشان نہیں کرتا۔‘‘
میزے ریستوران میں گاہکوں کو روایتی شامی کھانے جن میں بکلاوہ، یالانجی، اور فاتوش سلاد شامل ہیں، پیش کیے جاتے ہیں لیکن ابھی ان پناہ زینوں کو پرتگال میں ریستورانوں میں کام کرنے کی شرائط سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔
سن 2015 میں یورپ کو درپیش مہاجرین کے بڑے بحران کے بعد کئی سابقہ کمیونسٹ یورپی ریاست مہاجرین کے اپنے ملکوں میں قبولیت کے حوالے سے مزاحم رہی ہیں۔ لیکن پرتگال نے اس رویے کے مخالف سمت اختیار کی ہے۔
یورپی کمیشن نے یورپی یونین کے تجویز کردہ مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے کوٹے کے تحت پرتگال کو پانچ ہزار تارکین وطن کو اپنے ہاں آباد کرنے کو کہا تھا۔ ان میں شامی، عراقی اور افغان پناہ گزین شامل تھے۔ تاہم اس منصوبے کو بعض یورپی ممالک کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کے بعد گزشتہ سال فروری میں پرتگال نے یورپی کمیشن کو دس ہزار مہاجرین کی اپنے ملک میں آباد کاری کی پیشکش کی تھی۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔