ایک طرف جہاں دوسرے یورپی ممالک مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں وہیں پرتگال حکومت تارکین وطن کی ملک میں آمد کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس کا سبب پرتگال میں آبادی کی کم ہوتی شرح میں توازن لانا ہے۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
اشتہار
پرتگالی وزیر اعظم انتونیو کوسٹا نے مئی کے مہینے میں اپنی جماعت کے ايک اجلاس میں کہا تھا،’’ ہمیں زیادہ مہاجرین کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کا متعصب بیانیہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اسی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرتگال وہ پہلا ملک تھا جس نے جرمن این جی او لائف لائن کے جہاز پر موجود چند مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر قبول بھی کیا ہے۔ لائف لائن مہاجرین کو سمندر میں ڈوبنے سے بچانے والا ایک اين جی او ہے، جس کے ايک جہاز پر دو سو سے زائد تارکین وطن سوار تھے اور جو 21 جون کے بعد سے اٹلی کی جانب سے اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز کرنے سے انکار کے بعد سے سمندر میں سرگرداں تھا۔ بعد ازاں اسے مالٹا ميں لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے رکن ممالک کی مہاجرت کے مسئلے پر ہونے والی سربراہی کانفرنس میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا تھا کہ شمالی افریقی ساحلوں سے دور سمندر میں بچائے جانے والے مہاجرین کو قبول کرنا کس ملک کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اس پر پُرتگال نے بتایا تھا کہ وہ اس سلسلے میں پہلے ہی سے کئی اقدامات اٹھا چکا ہے۔
پرتگال کے وزیراعظم کوسٹا کا اس اجلاس کے بعد کہنا تھا،’’ یہ ایک مشکل اجلاس تھا اور بظاہر اتفاق رائے سے ہونے والے معاہدے بھی یورپی ممالک کے مابین مہاجرت کے موضوع پر ایک واضح تقسیم کو چھپا نہیں سکے۔‘‘
اُدھر پرتگال کی وزارت داخلہ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے،’’ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ کے انتخاب کے لیے جمعے کو ہونے والی رائے دہی میں سابق پرتگالی وزیر انتونیو ویتورینو کی نامزدگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پرتگال اس مسئلے کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/D.Z. Lupi
پرتگال نے ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لزبن حکومت کو اپنی افرادی قوت مستحکم رکھنے کے لیے ہر سال کم سے کم 75،000 نئے شہریوں کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں پرتگال نے گزشتہ ہفتے غیر ملکی طالب علموں کے لیے ویزا حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے بھی نئے اقدامات کیے ہیں۔
سن 2011 کے بعد پرتگال میں تین برس تک رہنے والے معاشی بحران کے سبب تین لاکھ کے قریب پرتگالی شہری بہتر ملازمتوں کی تلاش میں ملک چھوڑ گئے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان افراد کی تھی۔
گزشتہ برس لزبن حکام نے اکسٹھ ہزار چار سو نئے رہائشی اجازت نامے جاری کیے تھے جو سن 2016 کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ تھے۔
پرتگال رواں برس جنوری میں یورپی یونین کی جانب سے تجويز کیے جانے والے مہاجرین کی تقسیم کے پروگرام میں رضا کارانہ طور پر شامل ہے۔ اس پروگرام کے تحت دو سال کے عرصے میں پچاس ہزار مہاجرین کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں منتقل کیا جانا ہے۔
ص ح/ ع س / اے ایف پی
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔