پرتگال میں غیر ملکی مزدوروں کے لیے قوانین سخت بنا دیے گئے
12 اکتوبر 2024پرتگال نے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کارکنوں کو ورک پرمٹ کے لیے درخواست دینے اور اس عرصے کے دوران اس ملک میں رہنے کی اجازت دینے کا قانون ختم کر دیا ہے۔ امیگریشن پالیسی کے انچارج نائب وزیر روئی آرمینڈو فریٹاس کے مطابق یہ تبدیلی یورپی ضوابط کے عین مطابق ہے۔
لیکن غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے مطابق یہ تبدیلی مہاجرین مخالف اور عوامیت پسند دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ کے سبب کی گئی ہے۔
تاہم آرمینڈو فریٹاس کے مطابق سابقہ پالیسی کی وجہ سے یورپ بھر کے غیرقانونی تارکین وطن اس ملک کی جانب راغب ہو رہے تھے۔ پرتگال میں غیر قانونی تارکین وطن ملک میں داخل ہو سکتے تھے اور پھر ورک پرمٹ کے لیے اپلائی کر سکتے تھے۔
آرمینڈو فریٹاس کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس وقت پرتگال کی امیگریشن ایجنسی میں ''تقریباً چار لاکھ قانونی درخواستوں کا بیک لاگ‘‘ ہونے کی وجہ سے اس پالیسی کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''ان درخواستوں کی پراسیسنگ، جن میں سے کچھ دو سال پہلے جمع کرائی گئی تھیں، اگلے سال جون تک مکمل ہو پائے گی۔ ہمارا مقصد ان مسائل کو حل کرنا ہے، جو کئی برسوں میں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
تارکین وطن معیشت کے لیے اہم
پرتگال میں کام کرنے کے خواہش مند تارکین وطن کو اب بیرون ملک پرتگالی سفارت خانے یا قونصل خانے میں اپنے رہائشی اجازت نامے کے لیے درخواست دینا ہو گی۔ یہ قانون رواں برس جون سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ یہ شرط بیرون ملک مایوسی کا باعث بن رہی ہے کیونکہ بہت سے ممالک میں پرتگالی سفارت خانے یا قونصل خانے ہی نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر نیپال یا بنگلہ دیش کے فارم ورکرز اور فصلوں کی کٹائی میں مدد دینے والے مزدوروں کو اب نئی دہلی کے پرتگالی سفارت خانے میں اپنے ویزے کے لیے درخواست دینا ہو گی۔
پرتگالی کسانوں کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل لوئس میرا اس پالیسی کو نا قابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''ہمیں فصل کی کٹائی کے وقت لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، بعد میں کسی وقت نہیں۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کارکن تیزی سے اور ضرورت سے زیادہ بیوروکریسی کے بغیر پرتگال آتے رہیں۔‘‘
پرتگال کا گولڈن ویزا کے خاتمے کا اقدام کس حد تک مثبت ہے؟
پرتگال کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار تارکین وطن مزدوروں پر ہے۔ وہ زیادہ تر ایشیائی ممالک سے آ رہے ہیں اور زراعت میں کام کرتے ہیں۔ یہ مزدور کم اجرت پر زیتون کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور ان کی چُنی ہوئی اسٹرابری یورپ کے دیگر ممالک میں برآمد کی جاتی ہے۔
اسی طرح بہت سے برازیلین ہوٹلوں، ریستورانوں اور کیفز میں کام کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر افریقی کارکن تعمیراتی شعبے کے لیے اہم ہیں۔
مہاجرین مخالف جماعتوں کا دباؤ
عام طور پر پرتگال کے تارکین وطن مزدور ضروری دستاویزات کے بغیر ہی اس ملک میں آتے ہیں۔ انہیں اپنے رہائشی اجازت ناموں کے لیے اکثر کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اب تک انہیں پرتگال میں کام کرنے، ٹیکس ادا کرنے اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں شراکت کی اجازت تھی۔
یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اس ملک میں بھی غیرقانونی امیگریشن شدید بحث کی وجہ بن چکی ہے اور انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتیں اسے مزید ہوا دے رہی ہیں۔
امیگریشن پالیسی کے انچارج نائب وزیر روئی آرمینڈو فریٹاس کہتے ہیں کہ حکومت تارکین وطن کی تعداد میں کمی نہیں چاہتی بلکہ لیبر امیگریشن کے لیے واضح قوانین چاہتی ہے تاکہ انتہا پسند اس معاملے کو ''ہائی جیک‘‘ نہ کر سکیں۔
ان کے خیال میں نئے ضوابط پرتگال آنے والے لوگوں کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت دیں گے۔ ان کا کہنا ہے، ''آنے والوں کا انضمام ضروری ہے۔ ہماری معیشت کو ترقی کے لیے غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ نئے قوانین نئے مہاجرین اور پہلے سے یہاں رہنے والوں دونوں کے لیے ہی اچھے ہیں۔‘‘
نئے قوانین اور غیرقانونی امیگریشن
فریٹاس کا کہنا ہے کہ نئے ضوابط کا ایک خوش آئند ضمنی اثر یہ ہے کہ اس طرح تارکین وطن انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔
دوسری جانب غیر سرکاری تنظیمیوں کے مطابق حالات اس دعوے کے الٹ ہیں۔ گزشتہ سہ ماہی میں پرتگال میں کام کرنے کے لیے درخواستوں کی تعداد میں تقریباً ایک چوتھائی کمی آئی ہے جبکہ این جی اوز نے رپورٹ کیا ہے کہ بہت سے غیر ملکی کارکن غیر قانونی طور پر اس ملک میں داخل ہو رہے ہیں۔
تارکین وطن کے حقوق کے دفاع کے لیے کام کرنے والی فلاحی تنظیم سولیڈیریڈیڈ امیگرنٹ (سولیم) سے تعلق رکھنے والے البرٹو میٹوس کا کہنا ہے کہ مہاجرین پرتگالی کھیتوں اور ریستورانوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کرتی ہوئی معیشت کے لیے ضروری ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ''اگر یہ تارکین وطن آمد کے بعد اپنی حیثیت کو قانونی نہیں بنا سکتے تو غیر دستاویزی تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔‘‘
ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس صورت میں پرتگالی حکومت کے ان نئے قوانین کا الٹا اثر ہو گا۔
یوخن فاگیٹ (ا ا/ا ب ا)