1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرتگال: کورونا کے خلاف جنگ میں مہاجرین بھی شانہ بہ شانہ

14 اپریل 2020

لزبن کے ایک اسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتےکرتے تھکن سے چور اور بھوک سے پریشان نرس نونو ڈیلی کاڈو کو جب ایک شامی ریستوران کی طرف سے کھانےکا پیکٹ تحفہ میں ملا تو خوشگوار حیرت سے دوچار ہوگئیں۔

Portugal Coronavirus
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Franca

 مقامی طیبہ ریستوران کی طرف سے بھیجے گئے کھانے کے اس پیکٹ کے پیچھے کی کہانی اس تحفہ سے بھی خوبصورت، دلچسپ اور کہیں زیادہ حیران کن ہے۔ یہ ریستوراں جنگ زدہ ملک شام سے جان بچا کر ہنگری آنے والے ایک مہاجر جوڑے رامیا عبدالغنی اور الان غمیم چلاتے ہیں اور وہ گزشتہ مارچ سے ہی لزبن میں کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ میں مصروف طبی عملہ کو مفت کھانا کھلا رہے ہیں۔

ڈیلی کاڈو ممنونیت بھرے لہجے میں کہتی ہیں،''ہماری مدد وہ لوگ کر رہے ہیں، جنہیں خود مصائب سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے زندگی کا ایک بڑا سبق ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سماج کے طور پر ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ دینا چاہیے۔‘‘

پرتگال بھی کورونا وائرس کی وبا سے دوچار ہے۔ یہاں اب تک 16900مصدقہ کیسیز سامنے آچکے ہیں جب کہ 535افراد اس وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس وبا کے خلاف جنگ میں مصروف بیشتر طبی عملے کو اپنے گھر پر کھانا بنانے کے لیے وقت نہیں مل پاتا ہے جبکہ ہسپتال کا کیفیٹیریا ملک گیر لاک ڈاون کے سبب بند پڑا ہے۔ اس لیے ڈیلی کاڈو جیسے سینکڑوں ہیلتھ ورکروں کوکھانے کے لیے طیبہ ریستوران جیسے ہوٹلوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/P. De Melo Moreira

رامیا عبدالغنی اور الان غمیم یوں تو چار برس قبل پرتگال آئے تھے لیکن کئی کاروبار میں ہاتھ آزمانے کے بعد بالآخر پچھلے برس انہوں نے لزبن میں ریستوراں کھولنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ دراصل ان دونوں کی خواہش تھی کہ پرتگال کے لوگوں کو یہ بتاسکیں کہ شامی کھانے کتنے ذائقہ دار ہوتے ہیں۔

الان کہتے ہیں، ”شام میں صرف ٹینک اوربندوقیں ہی نہیں ہیں۔ ہماری ایک ثقافت ہے، ہمارے یہاں تاریخی شہر ہیں، ہمارے یہاں ایسی بہت سی چیزیں ہیں۔‘‘ اور ہم اپنے کسٹمرز کو یہ سب چیزیں دکھانا چاہتے تھے۔"الان مزید کہتے ہیں کہ جیسے ہی ہم پرتگال پہنچے تھے ہمیں محسوس ہوا کہ یہ ہمارا گھر ہے۔ اور جب یہاں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنی نئی کمیونٹی کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

الان مزید کہتے ہیں، ”جب آپ جنگ سے بچ کر آتے ہیں تو آپ تباہی کو تو محسوس کرتے ہی ہیں لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی کرتے ہیں کہ کون آپ کی مدد کررہا ہے۔ اس لیے ہم پرتگال میں جو کچھ بھی کرر ہے ہیں ُوہ دراصل ہماری طرف سے ان لوگوں کی معمولی خدمت ہے جنہوں نے تہہ دل سے ہمارا خیر مقدم کیا تھا۔‘‘

ہسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکروں کو طیبہ ریستوران میں صرف ایک فون کرکے یہ بتانا پڑتا ہے کہ انہیں کتنا کھانا چاہئے۔ اس کے بعد یہ شامی جوڑا اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔ ہیلتھ ورکروں کو اس ہوٹل کا مقبول ترین ڈش داود باشا سے لے کر ملائی دار ہموز سب کچھ دستیاب ہوتا ہے، وہ بھی مفت میں۔ ہیلتھ ورکر اگر چاہیں تو دن یا رات میں کسی بھی وقت ہوٹل جاکر بھی کھانا حاصل کرسکتے ہیں۔

شامی مہاجر جوڑے رامیا عبدالغنی اور الان غمیم کہتے ہیں کہ انہیں اپنے پرتگالی بھائی بہنوں کی خدمت کرکے دلی مسرت ہوتی ہے۔ اپنے فیس بک پیج پر انہوں نے لکھا ہے”ہم تمام میڈیکل ٹیموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جو دن بھر کی سخت محنت کے بعد اپنے گھروالوں کے ساتھ آرام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کے حقدار ہیں تاکہ اگلے دن محاذ جنگ پر پھر سے تروتازہ ہوکر لوٹ سکیں اور ہمارے لیے جنگ لڑ سکیں۔"
ج ا، ع ح (کیٹرینا ڈیمونی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں