1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرتھ ٹیسٹ، بھارت کو پھر شکست کا سامنا

14 جنوری 2012

پرتھ ٹیسٹ کے دوسرے دن کے اختتام تک بھارت نے اپنی دوسری اننگز میں چار کھلاڑیوں کے نقصان پر اٹھاسی رنز بنا لیے ہیں تاہم اسے اننگز کی شکست سے بچنے کے لیے ابھی مزید 120 رنز بنانا ہوں گے۔

سچن تندولکر سنچریوں کی سنچری بنانے میں ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گئےتصویر: AP

آسٹریلوی اوپنر کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کی بدولت آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز میں 369 رنز بنائے۔ ڈیوڈ وارنر کے 180 اور ایڈ کاوَن کے 74 رنز نے بھارتی بولروں کو پریشان کر دیا۔ دونوں کھلاڑیوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 214 رنز بنائے۔

اگرچہ ان کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد بھارتی بولروں نے اچھا ’کم بیک‘ کیا اور میزبان ٹیم کو جلد ہی آؤٹ کر دیا لیکن اسے اپنی پہلی اننگز کی بری کارکردگی کی وجہ سے 208 رنز کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ بھارت کی طرف سے امیش یادیو نے پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ ظہیر خان نے دو اور ونی کمار، اشانت شرما اور وریندر سہواگ نے ایک ایک وکٹ گرائی۔ امیش یادیو نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں پہلی مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ وہ چوتھے ٹیسٹ میچ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

پرتھ ٹیسٹ میں راہول ڈریورٰڈ اب بھارتی ٹیم کی آخری امید ہیںتصویر: AP

بھارت نے جب اپنی دوسری اننگز شروع کی تو آسٹریلوی بولروں نے ایک مرتبہ پھر تباہ کن بولنگ کا مظاہرہ کیا اور بھارتی بلے بازی کا ٹاپ آرڈر اڑا کر رکھ دیا۔ دوسرے دن کے اختتام تک بھارت کے انتہائی اہم بلے باز یعنی گوتم گھمبیر، سہواگ، سچن تندولکر اور وی وی ایس لکشمن پویلین لوٹ چکے ہیں۔ اس وقت راہول ڈریورڈ بتیس جبکہ ویراٹ کوہلی اکیس رنز پر ناٹ آؤٹ ہیں۔

آسٹریلیا کی طرف سے مچل اسٹراک نے دو جبکہ بن ہیلفن ہاؤس اور پیٹر سڈل کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ بھارت کی ٹیم چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کھیلے جا رہے اس تیسرے ٹیسٹ میچ پر بھی اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ ناقدین کے بقول اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا بھارتی بلے باز آسٹریلیا کو دوسری اننگز کھیلنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں یا وہ ایک مرتبہ پھر اننگز کی شکست سے دوچار ہوں گے۔ چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں اس وقت آسٹریلیا کو دو صفر سے برتری حاصل ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں