شیشوں سے ٹکرانے کے سبب پرندوں کی موت کو کیسے روکا جائے؟
21 اپریل 2022
دنیا بھر میں اربوں پرندے ہر سال شہروں کی بلندوبالا عمارتوں کی کھڑکیوں کے شفاف ترین شیشوں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتے ہیں۔ اس مسئلے کو روکنے کے لیے سائنسدان انتہائی آسان حل آزما رہے ہیں۔
شیشے کی عمارتیں بہت سے ہجرت کرنے والے پرندوں کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور وہ عمارت کے شیشے سے ٹکرا کر دم توڑ دیتے ہیں۔تصویر: John Minchillo/AP/picture alliance
اشتہار
نیویارک میں اربن کنزرویشن گروپ 'این وائے سی اوڈوبون‘ کی رضاکار دویا اننتھارامن فلک بوس عمارتوں کے شیشوں سے ٹکرانے والے متاثرہ پرندوں کو تلاش کر رہی ہیں۔ وہ اپنے راستے میں ہر کونے کوچے اور جھاڑیوں کا غور سے معائنہ کرتی جاتی ہیں کہ کہیں کوئی ایسا زخمی پرندہ نہ مل جائے، جس کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ انہیں زیادہ تر ایسے مردہ پرندے ہی ملتے ہیں، جو بلند عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشوں سے تصادم کا نشانہ بن چکے ہوتے ہیں۔
اربوں پرندوں کی موت
اس تنظیم کے اندازوں کے مطابق ہر سال نوے ہزار سے دو لاکھ تیس ہزار پرندے نیویارک کی عمارتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اس شہر میں رات کے وقت روشن عمارتیں خاص طور پر موسم بہار اور خزاں کے دوران مہاجرت کرنے والے پرندوں کے لیے خطرناک رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ پرندے سرد موسم سے بچنے کے لیے نیویارک سے گزرتے ہوئے جنوبی امریکہ جاتے ہیں۔
امریکہ میں عمارت میں نصب شیشے اِن پرندوں کے لیے موت کا ایک جال بن جاتے ہیں۔تصویر: Karlijn van Houwelingen/DW
یہ مہاجر پرندے رات کے وقت عموماﹰ ستاروں کی مدد سے اپنے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن ان عمارتوں کی مصنوعی لائٹیں انہیں اپنی راہ سے بھٹکا دیتی ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ وہ کسی ستارے کی روشنی کی جانب پرواز کر رہے ہیں لیکن اچانک سے وہ عمارتوں میں نصب شیشوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔
این وائے سی اوڈوبون کی بائیولوجسٹ کیٹلن پارکنس کہتی ہیں کہ 'ریفلیکٹیو گلاس‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ''پرندے درخت کی عکس نہیں پہچان سکتے، ان کے لیے یہ درخت ہی ہے۔ وہ تیزی اس تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیشے سے تصادم کے بعد ان کی فوراﹰ موت ہوجاتی ہے۔‘‘
سن 1990 کے ایک مطالعے کے مطابق امریکہ میں سب سے زیادہ پرندوں کی موت تصادم کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، یعنی عمارت میں نصب شیشے اِن پرندوں کے لیے موت کا ایک جال بن جاتے ہیں۔ پینسلوینیا میں موہلنبرگ کالج کے پرافیسر ڈینیئل کلیم کھڑکیوں کے ساتھ تصادم کو پرندوں کے تحفظ کے لیے ایک بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ''سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ کئی نایاب اور صحت مند پرندے بھی ان تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہم ان کو کھونے کا مزید نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
اشتہار
ایک بین الاقوامی مسئلہ
حالیہ سالوں میں سائنسدانوں اور کنزرویشن تنظیموں نے اس معاملے کو کافی حد تک سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ بِن بِن لی چین میں کھڑکیوں سے ٹکرا کر مرنے والے پرندوں کے دو مانیٹرنگ گروپس کی سربراہی کرتی ہیں۔ وہ اسٹوڈنٹس کے ایک گروپ کے ہمراہ چینی شہر سوژو میں اپنے یونیورسٹی کیمپس میں دوارنِ پرواز تصادم کے باعث ہلاک ہونے والے پرندوں کا ریکارڈ جمع کرتی ہیں۔ لی کہتی ہیں کہ زیادہ تر متاثرہ پرندے شیشے کی عمارتوں کے آنگن کے پاس ہی ملتے ہیں۔
الوداع اے پیارے پرندوں، الوداع اے مہمانوں
ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں کروڑوں انسانوں کی مہاجرت کا سبب بن رہی ہیں۔ ايسے ميں ماحولیاتی تغیر و قدرتی نظام کی تباہی دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی آمد میں بھی کمی کا سبب بن رہی ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
عقابی اُلو (Eagle Owl)
بھورے رنگ کے اس اُلو کا شمار اپنی طرح کے جانوروں کی چند بڑی اقسام میں ہوتا ہے۔ یہ اُلو یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے اور یہ بڑے جانوروں کا شکار بھی کرتا ہے۔ اس کے پر دو سے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں اور اس کی اوسط عمر تقریباﹰ بیس سال ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نیلی دم والا مگس خور (Blue-tailed Bee Eater)
بہت طویل مسافتوں تک نقل مکانی کرنے والے اس پرندے کا تعلق شمال مشرقی ایشیا سے ہے۔ اس کی خوراک عموماﹰ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔ سال کے مختلف موسموں میں مسلسل ہجرت کرتے رہنے کے لیے مشہور یہ پرندہ زیادہ تر جھیلوں کے آس پاس پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے پھیلاؤ، غیر منظم سیاحت اور انسانوں کے ہاتھوں پرندوں کے مخصوص ماحولیاتی نظاموں کو جو نقصان پہنچا ہے، اس نے اس مگس خور کے طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
لکیروں والے سر والی مرغابی (Bar-Headed Goose)
یہ دلکش پرندہ گرمیوں میں وسطی ایشیا جبکہ سردیوں میں جنوبی ایشیا کی جانب ہجرت کرتا ہے۔ بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کرنے والے پرندوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہ اکثر انتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ اور ہمالیہ کے پہاڑوں کے اوپر فضا میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ہجرت کے دوران یہ پرندہ ایک دن میں اوسطاﹰ ایک ہزار میل تک کا سفر طے کرتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سرمئی سر والا واربلر (Grey Hooded Warbler)
اس بہت نازک سے اور انتہائی خوبصورت پرندے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماﹰ جنوبی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ننھا منا ہونے کے باعث اس پرندے کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس کا جسم تقریباﹰ دس سینٹی میٹر تک لمبا ہوتا ہے اور یہ خوراک میں مختلف طرح کے کیڑے مکوڑے شوق سے کھاتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
ایک منفرد شاہین (Pallas Fish Eagle)
اس شکاری پرندے کا تعلق وسطی اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس کا شمار ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار پرندوں میں ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور کم ہوتے ہوئے سرسبز علاقوں اور آبی خطوں کے سبب ایسے پرندوں کے ناپید ہو جانے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی اس شکاری پرندے کی محبوب خوراک ہے اور اس کا وزن تقریباﹰ چھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نارنجی دھاری والا بُش روبن (Orange Flanked Bush Robin)
بہت حسین رنگوں سے آراستہ یہ ننھا منا سا پرندہ ہجرت کرتا ہوا پورے کے پورے براعظم پار کر جاتا ہے۔ یہ سردیاں ایشیا میں گزارتا ہے اور گرمیوں کی آمد پر یورپ کا رخ کر لیتا ہے۔ ایسے انتہائی کم جسمانی وزن والے کروڑوں پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں، جنہیں ماحولیاتی ماہرین ’ویٹ لینڈز‘ یا گیلی زمینوں کا نام دیتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
ہیرون (Heron)
لمبی چونچ والا یہ پرندہ تقریباﹰ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، خاص کر آبی علاقوں کے قرب و جوار میں۔ مچھلی اور آبی کیڑے اس کی مرغوب ترین خوراک ہوتے ہیں۔ ایسے پرندے گروہوں کی شکل میں رہتے اور غول بن کر اڑنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی ہیرون کی اوسط عمر بیس سال کے قریب ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فیزنٹ کی دم والا جاکانا (Pheasant-tailed Jacana)
لمبی ٹانگوں اور چوڑے پنجوں والا، بھورے اور سفید رنگوں والا یہ پرندہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے گھنے جنگلوں کے درمیان ہجرت کرتا ہے۔ یہ جاکانا کی واحد قسم ہے، جو بہت طویل فاصلے طے کر سکتی ہے۔ نر پرندہ مادہ سے زیادہ لمبے جسم کا حامل ہوتا ہے۔ پرندوں کی بین الاقوامی اور بین البراعظمی ہجرت پر منفی اثرات کی بڑی وجوہات میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کا خاتمہ اور آبی علاقوں کا کم ہوتا جانا شامل ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
بگلا (Stork)
یہ طویل القامت، لمبی ٹانگوں اور لمبی چونچ والا پرندہ عموماﹰ جھیلوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ اس کی یہ قسم زیادہ تر شمالی امریکا اور آسڑیلیا میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بگلے کی کئی اقسام ایشیا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی خوراک زیادہ تر مچھلیاں اور چھوٹے حشرات ہوتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
سیٹیاں بجاتی بھوری بطخ (Lesser Whistling Duck)
اس خوش آواز پرندے کو انڈین وِسلنگ ڈک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ جنوبی ایشیائی خطوں میں پایا جاتا ہے اور اپنے گھونسلے اکثر درختوں پر بناتا ہے۔ اس کی غذا میں زیادہ تر گھاس پھوس اور چھوٹے حشرات شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندہ بیک وقت بارہ انڈے دیتا ہے۔ اس کے چہچہانے کی آواز ایسی ہوتی ہے، جیسے کوئی بڑی سریلی سیٹی بجا ر ہا ہو۔
تصویر: Bilal Qazi
بڑا فلیمنگو (Greater Flamingo)
گلابی رنگ والا لمبے قد کا یہ دلکش پرندہ گریٹر فلیمنگو افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنونی یورپ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال تک ہوتی ہے۔ اس کی خوراک مچھلی اور دریائی کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں اور اس کا وزن چار سے پانچ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سینڈ پائپر (Sand piper)
بھورے رنگ کے اس پرندے کی دنیا بھر میں کئی قسمیں پائی جاتی ہیں اور یہ پرندہ کرہ ارض کے تقریباﹰ سبھی خطوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک مچھلی ہے اور یہ اکثر عمر بھر اپنے ایک ہی ساتھی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ زمین پر یا کسی بھی کھلی جگہ پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور بیک وقت تین سے چار تک انڈے دیتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فوٹوگرافر بلال قاضی
گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستان بھر میں پیشہ وارانہ بنیادوں پر جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے والے بلال قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کل تقریباﹰ 780 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں اور وہ اب تک تین سو سے زائد انواع کے پرندوں کی تصاویر بنا چکے ہیں۔ ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں اور غیر قانونی شکار کے باعث بھی نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی تعداد اب پندرہ سے تیس فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
لی نے اس مسئلے کی جامع معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک نیشنل سروے کا آغاز کیا۔ ''ہمیں معلوم ہوا کہ تصادم کی وجہ سے پرندوں کی موت کا مسئلہ عوامی سطح پر اتنا مقبول نہیں ہے، یہاں تک کہ اکیڈیمیا میں بھی نہیں۔‘‘
کوسٹا ریکا میں ایک پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ روز ماری میناکو کو آٹھ برس قبل اپنے پروفیسر کو اس بات پر آمادہ کرنا پڑا تھا کہ انہیں پرندوں کے تصادم کے بارے میں تحقیق کرنے کی اجازت دی جائے۔ ''انہیں اس موضوع کے بارے میں زیادہ علم ہی نہیں تھا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ واقعی ایک مسئلہ ہے۔‘‘
اب وہ تقریباﹰ پانچ سو رضاکاروں کے ساتھ پرندوں کے تحفظ کے اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔
بنکاک کے ماحول دوست روف ٹاپ گارڈن
02:12
This browser does not support the video element.
شیشہ تبدیل کریں اور لائٹ بند کیجیے!
بائیولوجسٹ کیٹلن پارکنس کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل بہت آسان ہے، ''صرف کھڑکیوں کا شیشہ تبدیل کریں اور لائٹس بند کردیں۔‘‘ ریسرچ کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا کے ساتھ پارکنس اور ان کی ٹیم اب عمارتوں کے مالکان کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شیشے تبدیل کیے جانے کے بجائے خاص فوائل یا ورق بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، تاکہ ریفلیکشن کو قدراﹰ کم کیا جاسکے۔ اس طریقے سے حدت اور ٹھنڈک کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کی بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شیشے کی کھڑکیوں پر خاص نشانات کے ذریعے بھی پرندوں کو عمارت کو پہچاننے میں مدد مل سکتی ہے۔
’چنئی کا بَرڈ مین‘
01:47
This browser does not support the video element.
نیویارک سٹی نے رواں برس جنوری میں ایک قانون سازی کی تھی، جس کے تحت پرندوں کی ہجرت کے موسموں کے دوران عوامی عمارتیں رات کے وقت لائٹس بند رکھیں گی۔ گزشتہ برس سے تمام معماروں کو بھی نئی عمارتوں کے لیے 'برڈ فرینڈلی ڈیزائن‘ استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر شیشوں پر الٹرا وائلٹ کوٹنگ لگائی جائے، جو پرندوں کو نظر آسکتی ہے لیکن انسانی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکے گی۔
پرندوں کے تحفظ کے لیے ایک مثبت آغاز
امریکہ اور کینیڈا میں پرندوں کے تحفظ کے لیے متعدد برادریوں میں کئی رضاکار سرگرم ہیں اور پرندوں کو عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرانے سے بچانے کے لیے بلدیاتی حکومتیں تیزی سے نئے قوانین بھی متعرف کروا رہی ہیں۔
امریکن برڈ کنزروینسی نامی غیر منافع بخش تنظیم کے مطابق اس بارے میں نیو یارک کا قانون ایک موثر اضافہ ہے۔ تقریباﹰ نصف صدی تک پرندوں کے تصادم پر ریسرچ کرنے والے ڈینیئل کلیم اب بہت خوش ہیں۔ وہ آخر کار اس مسئلے کے بارے میں لوگوں میں وہ شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس کی وہ امید کرتے تھے۔
کارلین فان ہوولنگن / ع آ / ر ب
پاکستان میں ’مہاجر پرندوں‘ کی آمد کیوں کم ہو رہی ہے؟