پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شہباز گل کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دیے جانے والے حالیہ متنازعہ بیان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔
اشتہار
اس بیان کے بعد اسلام آباد پولیس نے شہباز گل کو بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ہفتے بعد ہی اس مشکل صورتحال کا سامنا ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ اور اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف دونوں کی مخالفت سے بچنے کا چیلنج درپیش ہے۔
فوج کی حمایت میں پرویز الٰہی کا واضح بیان
بدھ کے روز ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے شہباز گل کے بیان کے برعکس خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو شہباز گل کے بیان سے الگ کر لے۔ ان کے مطابق انہوں نے شہباز گل کو فوج مخالف بیان دینے پر ڈانٹا تھا اور کہا تھا، ''کوئی عقل ہے تم میں؟‘‘ ان کی رائے میں فوج مخالف بیان دینے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ صرف نقصان ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان خود فوج کے حق میں بیان دیتے ہیں، فوج کے خلاف جو بات کرے گا وہ پاکستانی نہیں ہو سکتا۔
پرویز الٰہی اپنی مرضی سے بیان دے سکتے ہیں؟
چوہدری پرویز الٰہی کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب تحریک انصاف کے کئی رہنما شہباز گل کے حالیہ متنازعہ بیان کی واضح مذمت کرنے سے کترا رہے ہیں اور وہ شہباز گل کی گرفتاری کے طریقہ کار کی زیادہ مخالفت کر رہے ہیں۔ پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں کی طرف سے بیان کردہ خیالات سے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں واضح اور الگ لائن اختیار کی ہے۔
تقریباﹰ دو ہفتے پہلے پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مدد سے ایک سو چھیاسی ووٹ لے کر وزیر اعلٰی پنجاب منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف دس ووٹ تھے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ دھیمے مزاج کے 76 سالہ چوہدری پرویز الٰہی کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر نہیں جا سکتے۔ ان کی توجہ اگلے الیکشن سے پہلے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے ساتھ اپنے ووٹ بینک میں اضافے پر مرکوز رہے گی۔
پرویز الٰہی کے بیان پر پی ٹی آئی کا ممکنہ ردعمل
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے وابستہ سینئر تجزیہ کار جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اصل میں پی ٹی آئی کے اندر بھی دو گروپ بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک بڑا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی ٹھیک نہیں، اس سے پارٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ایک گروپ ایسا بھی ہے جس کے خیال میں طاقت ور حلقوں کو دباؤ میں لا کر 'بہتر فیصلوں‘ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ جاوید فاروقی کے مطابق، ''اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پارٹی کی پالیسی پر کون سا دھڑا کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟‘‘
اشتہار
کیا پی ٹی آئی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے؟
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ شہباز گل یا پی ٹی آئی کے دیگر رہنما عموماﹰ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر بیان نہیں دیتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اپنی اتحادی جماعت سے مشاورت کے بغیر اپنی مرضی سے شہباز گل کے بیان کے برعکس بیان دینے پر پاکستان تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتی ہے، جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی نہیں لا سکتی اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو 'پاکستان کی حیران کر دینے والی سیاسی صورتحال میں‘ کیا بعید کہ وہ' آصف زرداری کی کرشماتی کوششوں کےطفیل پی ڈی ایم کے امیدوار‘ کے طور پر سامنے آ جائیں۔ یاد رہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے پاکستان تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار برائے وزارت اعلیٰ پنجاب بننے سے چند ہی دن پہلے عمران خان کو ایک ٹی وی انٹرویو میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
پرویز الٰہی کا بیان پی ٹی آئی کی غیر اعلانیہ حکمت عملی کا نتیجہ؟
جاوید فاروقی کا خیال ہے کہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کی ساری بڑی پارٹیوں نے اپنے ساتھ کچھ ایسے لوگ رکھے ہوئے ہیں، جنہیں ضرورت پڑنے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان مسلم لیگ ن اس کی ایک اہم مثال ہے جہاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے حامی کے طور پر پارٹی کے بعض ارکان کی مخالفت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رابطوں کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح کوئی نہیں جانتا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ موافقت کی طویل تاریخ رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی سے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی کے ٹوٹے بکھرے تعلقات کی تعمیر و مرمت کا کام لیا جا رہا ہو۔
پنجاب اور مرکز تصادم کی راہ پر؟
پاکستان کے سینئر تجزیہ کار اور معروف ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مرکز اور پنجاب میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود دونوں کے مابین تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں اصولی سیاست نہیں ہو رہی۔ ہرکوئی اپنی جماعت کے مفاد میں اصولوں پر سمجھوتہ کیے جا رہا ہے۔ ان کے مطابق سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان میں آئندہ دنوں میں معاشی بحران زیادہ سنگین ہو سکتا ہے، آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد بھی عارضی ریلیف ثابت ہو گی۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ تمام سیاسی قوتیں باہمی مشاورت سے مل جل کر ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔