پرویز مشرف بستر پر نہیں، انہیں عدالت میں پیش ہونا ہوگا
9 جنوری 2014تین رکنی خصوصی عدالت نے جمعرات کے روز ہسپتال میں زیر علاج ملزم پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔
عدالتی فیصلہ خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل رپورٹ سے اس امر کی عکاسی نہیں ہو رہی کہ ملزم کو ہارٹ اٹیک ہوا یا وہ اس حد تک بیمار ہیں کہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے ملزم کے وکلاء کی درخواست کے بغیر تین مرتبہ حاضری سے استثنیٰ دیا جبکہ ملزم عدالتی حکم کی تعمیل میں ناکام رہا۔
قبل ازیں دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے مشرف کی طبی رپورٹس کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کو دل کی تکلیف ہے جس کیلئے انجیو گرافی تجویزکی گئ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی بیماری کے علاج کے دوران اوپن ہارٹ سرجری کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ ملزم کا حق ہے کہ وہ اپنی بیماری کا ہرممکن علاج کرائے اور اس کیلئے وہ بیرون ملک بھی جاسکتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق بیماری کی حالت میں کسی بھی ملزم کو شہادت کے لیے عدالت طلب کرنا تشدد کے مترادف ہے۔
وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے کہا کہ پرویز مشرف بستر پر نہیں وہ وکلا اور ملاقاتیوں سے بھی مل چکے ہیں اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ سےعام کمرے میں منتقل ہوچکے ہیں۔ پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ سابق صدر کی طبی رپورٹ کو نظر انداز کرکے انہیں عدالت طلب کیا جائے۔ سماعت کے بعد پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے زرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکلا ء صفائی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ جنرل مشرف کو کوئی ایسا عارضہ لاحق ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ " فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ ان کا بلڈ پریشر سسٹالک 120 اور ڈائیسٹالک 80 ہے جو ایک اسپورٹس مین کا بلڈ پریشر ہوتا ہے۔ ان کے دل کی دھڑکن کی رفتار 53 ہے جو ایک اٹھارہ سال کے نوجوان کی ہوتی ہے۔ تو کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جو انہیں عدالت میں آنے سے روکے"۔
دوسری جانب پرویز مشرف کے وکلا ء کی ٹیم کے ایک رکن چوہدری فیصل حسن نے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل عدالتی حکم کی تعمیل کریں گے۔ انہوں نے کہ عدالت نے ان کے مؤکل کو سمن جاری کیے ہیں نہ ہی وارنٹ گرفتاری صرف پیش ہونے کا کہا ہے۔ چوہدری فیصل کا کہنا تھا کہ ابھی اس مقدمے میں وکلا ء صفائی کی جانب سے اٹھائے گئے بہت سے اہم قانونی نقاط کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ"کل ایک اہم فیصلہ متوقع ہے۔ اس میں یہ ہے کہ اس مقدمے میں ضابطہ ء فوجداری کے قانون کے تحت کاروائی کی جائے گی یا کون سے ضابطے کے تحت یہ ٹرائل چل رہا ہے عدالت اس پر فیصلہ دے گی اور میں سمھجتا ہوں کہ یہ مقدمے کی کاروائی آگے بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہے"۔
دوسری جانب جمعرات کے روز ہی پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ گزشتہ سال ستمبر میں ملکی صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد ان کی یہ احتساب عدالت میں پہلی پیشی تھی ۔ اس سے قبل سابق صدر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔عدالت نے پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اعظم ہاؤس میں پولو گرآؤنڈ کی تعمیر میں بدعنوانی کے مقدمے میں آصف زرداری پر فرد جرم عائد کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔