1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز مشرف کو سزا نہیں مل سکے گی؟

13 جنوری 2020

پرویز مشرف کیس میں سزا سنانے والی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دیے جانےکے فیصلے کو ان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہے ہیں لیکن عمومی تاثر یہی ہے پرویز مشرف کو سزا ملنے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔

Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf Archiv 2010
تصویر: Reuters

قانون کے مطابق اس فیصلے کے خلاف صرف حکومت ہی اپیل کر سکتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور پرویز مشرف کے وکلاء کے اس کیس میں ایک ہی صفحے پر ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ عدالت عالیہ کی طرف سے یہ فیصلہ پیر 13 جنوری کو پرویز مشرف کی جانب سے دی گئی اس درخواست پر سنایا گیا، جس میں انہیں سزا سنانے والی خصوصی عدالت کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکلاء کے مطابق اس فیصلے کے بعد خصوصی عدالت کی تمام کارروائی بھی کالعدم ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سنائی گئی سزا بھی ختم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف نامور وکیل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ عدالت نے تیکنیکی بنیادوں پر فیصلہ سنانے والی عدالت کی تشکیل کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ پرویز مشرف نے اپنے جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ تصویر: Reuters

جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے سلسلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے اور عدالت کی تشکیل اور نہ ہی مقدمے کے اندراج کے لیے مجاز اتھارٹی سے منظوری لی گئی۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ان کے بقول عملی طور پر اب یہ کیس مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے،کیونکہ کوئی متاثرہ فریق باقی نہیں بچا ہے، پاکستان میں زمینی حقائق یہی ہیں اور پیپلز پارٹی اور نون لیگ جیسی جماعتیں بھی اس حقیقت کو اب تسلیم کر چکی ہیں: ''اب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں آئین کے آرٹیکل چھ پر کس طرح عملدرآمد کرانا ممکن ہو سکے گا کیونکہ سارے اختیارات لے کر اگر ایک آمر اپنا نام چیف ایگزیکٹو رکھ لے تو قانونی موشگافیوں سے اس کے لیے راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آئین کو معطل کیے بغیر بھی سارے اختیارات لے کر سب کچھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے ، اس پر آئین کا آرٹیکل چھ کیا کرے گا۔‘‘

نوید چوہدری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی ملک سے باہر ہیں: ''انہیں اس لیے باہر رکھا گیا تھا تاکہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں متنازعہ سوالات نہ اٹھائے جا سکیں۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ ان کے خلاف اکبر بگٹی سمیت دیگر مقدمات میں بھی ان کو سزا نہیں مل سکے گی۔‘‘

پرویز مشرف کو سزا، عدلیہ اور فوج آمنے سامنے

01:55

This browser does not support the video element.

ایک اور تجزیہ نگار سلمان عابد کی رائے کچھ مختلف ہے۔ ان کے خیال میں مشرف کو سزا سنانے والے فیصلے میں کئی سقم تھے اور خاص طور پر پیرا چھیاسٹھ پر بڑی تنقید سامنے آئی تھی: ''وہ فیصلہ بھی عدالت کا تھا جس پر عدالتوں کی آزادی کے نعرے لگائے گئے تھے اور اب یہ فیصلہ بھی تو عدالت کا ہی ہے۔ اس کو ماننے میں تامل کیوں ہے؟‘‘

ان کے بقول ہمیں اپنی مرضی کے فیصلوں کی توقع رکھنے کی بجائے قانونی پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے: ''ان فیصلوں کو سیاسی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے قانونی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ آرٹیکل چھ صرف ایک بندے پر لاگو نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں تعاون کرنے والے تمام افراد کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے تقویت پانے والی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں جمہوریت کو بالا دستی دینے کے لیے جمہوری سیاست دانوں کو غیر معمولی کارکردگی دکھانا ہو گی: ''یہ پاکستان کی زمینی حقیقت ہے، اگر سیاست دان سمجھوتے کر کے چھوٹتے رہیں گے تو پھو آمروں کے خلاف کارروائی کی توقع بھی نہیں رکھی جانی چاہیے۔‘‘

جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا

01:02

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں