1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کی خواہش، فوج کی طرف سے حمایت

15 جون 2022

پاکستان کے سابق فوجی آمر پرویز مشرف شدید بیمار اور دبئی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ملکی فوج کے مطابق وہ پرویز مشرف کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مشرف کی وطن واپسی کی حمایت کی ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پاکستان کے سابق فوجی آمر پرویز مشرف شدید بیمار اور دبئی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ملکی فوج کے مطابق وہ پرویز مشرف کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مشرف کی وطن واپسی کی حمایت کی ہے۔

پاکستان میں سابق فوجی صدر اور ایک انتہائی کمیاب بیماری کا شکار پرویز مشرف کی دبئی سے ممکنہ وطن واپسی کے معاملے میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری بحثوں میں ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل مشرف نے ملک کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں اور انہیں فوری طور پر واپس وطن لایا جانا چاہیے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اس سابق فوجی حکمران نے اپنے دور اقتدار میں دو مرتبہ آئین شکنی کی اور وہ اپنے ‌خلاف مقدمات میں عدالت میں ہیش بھی نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہیں پاکستان لوٹنے کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔

سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف ایمیلوئیڈوسس نامی ایک ایسی بیماری کا شکار ہو کر دبئی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جس کے دنیا بھر میں مریضوں کی کُل تعداد بہت ہی تھوڑی ہے۔

سابق فوجی آمر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بیماری کے سبب ان کےجسمانی اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ان اعضاء کی بحالی کا بھی کوئی امکان نہیں۔

پرویز مشرف کے ایک قریبی ساتھی محمد امجد نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ''انہوں (پرویز مشرف) نے واپس گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘

محمد امجد کے بقول پاکستانی فوج کے اس سابق سربراہ کی حالت تشویش ناک ہے اور ان کے اہل خانہ ڈاکٹروں کی طرف سے اس اشارے کے منتظر تھے کہ کب پرویز مشرف کو ہسپتال سے منتقلی کی اجازت مل جائے۔

پرویز مشرف اپنے خلاف مختلف عدالتی مقدمات سے بچتے ہوئے سن2016 سے دبئی میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

گزشتہ جمعے کے روز پرویز مشرف کے انتقال کی افواہ پھیلنے کے بعد ان کے قریبی ساتھیوں نے پاکستانی فوج کی موجودہ قیادت سے رابطہ کر کے اس سابق جرنیل کی وطن واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی درخواست کی تھی۔

پرویز مشرف کو سزا، عدلیہ اور فوج آمنے سامنے

01:55

This browser does not support the video element.

منگل چودہ جون کے دن پاکستانی فوج نے بھی ان کی ممکنہ وطن واپسی کی حمایت کی تھی۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ طبی طور پر پرویز مشرف کی حالت بہت خراب ہے اور فوج کا موقف یہ ہے کہ انہیں واپس پاکستان آ جانا چاہیے، جس کے لیے پاکستان آرمی نے ان کے خاندان سے رابطہ بھی کیا ہے۔

دریں اثناء سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سابق فوجی صدر کی انسانی بنیادوں پر  وطن واپسی کی حمایت کی ہے۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر سن 1999 کو ایک فوجی بغاوت کی قیادت کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول اور پھر جلاوطن کر دیا تھا۔ 

نواز شریف نے ایک ٹویٹ میں اپنی جماعت قیادت میں ملک کی موجودہ مخلوط حکومت سے درخواست کی تھی کہ پرویز مشرف کی وطن واپسی کے لیے سہولت کاری کی جائے۔ نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کے بعض دیگر رہنماؤں نے بھی پرویز مشرف کو وطن لوٹنے کی اجازت دیے جانے کی حمایت کی ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مشرف کی وطن واپسی کی حمایت کی ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

مشرف کے خلاف مقدمات

پرویز مشرف تقریباﹰ نو سال تک حکمرانی کے بعد سن 2008 میں اقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں ملکی آئین کی پامالی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو معزول کرنے کے الزامات میں ان کے خلاف ایک خصوی عدالت میں سنگین نوعیت کی غداری کا مقدمہ بھی چلایا گیا تھا۔ وہ اپنے خلاف اس مقدمے کی سماعت کے دوران صرف ایک بار عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

بعد میں ان کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف بیمار ہیں اور انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں سن 2016 میں ان پر لگائی گئی سفری پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے تاحال وہ دبئی میں مقیم ہیں۔

پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں سن 2019 میں سنگین غداری کے مقدمے میں سزائے موت بھی سنا دی گئی تھی، تاہم بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل ہی کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا

01:02

This browser does not support the video element.

ش ر / م م (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں