پرویز مشرف کے حق میں درخواست: پی ٹی آئی تنقید کی زد میں
عبدالستار، اسلام آباد
26 نومبر 2019
اسپیشل کورٹ کو پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے سے روکنے کی درخواستوں پر پاکستان میں کئی حلقے شدید ناراض ہیں اور اسے آمریت دوستی کا نام دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے پی ٹی آئی پر بہت زیادہ تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
اشتہار
چند حلقوں کا خیال ہے کہ ایسی درخواستوں کے پیچھے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی ہے بلکہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزا سے بچانا چاہتی ہے۔ نہ صرف بہت سے سیاست دان اور وکلاء بھی اس حکومتی اقدام پر غصے میں ہیں بلکہ آج منگل چھبیس نومبر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ملکی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر دی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ وہ پرویز مشرف کے مقدمے کی کارروائی مکمل کر کے اپنا فیصلہ سنائے۔
پاکستانی میڈیا نے ماضی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ ملکی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف نے ان کی مدد کی تھی۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ جی ایچ کیو کے اعلیٰ حلقے آج بھی سابق صدر کو سزا بچانا چاہتے ہیں۔
'جمہوریت کے لیے نقصان دہ‘
معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے سابق صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پرویز مشرف کا دفاع کر کے اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پورا کر کے جمہوریت کو بہت بڑا نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک آئین شکن کو غداری کے مقدمے میں بچانے سے آئین شکنوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو غدار نہ کہا جائے بلکہ آئین شکن کہا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک سے اس سے بڑی کوئی غداری ہو سکتی ہے کہ آپ ملک کا آئین توڑ دیں جو ریاست کی اصل اساس ہے۔ میرے خیال میں مشرف کو صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی بچا رہی ہے، جو نہیں چاہتی کہ فوج کے سابق سربراہ کے سینے پر غداری کا داغ کوئی لگے۔‘‘
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایسشن کے سابق عہدیدار لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''پی ٹی آئی مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس حکومت میں اس کے حمایتی موجود ہیں، جو اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسی مدد کسی اور حکومت کے دور میں ممکن نہیں۔ پرویز مشرف کو ڈر ہے کہ اگر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، تو مشرف کی جائیدادیں اور ساری دولت چھن سکتی ہیں۔‘‘
'اشتہاری کے لیے ریلیف نہیں‘
کئی دیگر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کو ریلیف مل سکتا ہے لیکن لطیف آفریدی اس پہلو سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''مشرف ایک اشتہاری ہیں اور ایک اشتہاری کو اس وقت تک ریلیف نہیں مل سکتا جب تک وہ عدالت کے سامنے خود پیش نہ ہو۔ میرے خیال میں ان کو اس صورت حال میں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا اور عدالتوں کے لیے یہ بھی مشکل ہو گا کہ وہ اسپیشل کورٹ کو فیصلہ سنانے سے روکیں کیونکہ چیف جسٹس نے حال ہی میں اشارتاﹰ پرویز مشرف کے مقدمے کا تذکرہ بھی کیا تھا اور اب لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ اس مقدمے میں سابق آمر کو سزا ملتی ہے یا نہیں۔‘‘
لطیف آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے وہ مشرف کو برا بھلا کہتے تھے اور آج وہ انہیں بچانا چاہ رہے ہیں، ''عمران خان کی زبان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ وہ یو ٹرن لینے کے ماسٹر ہیں۔ پھربول دیں گے کہ یہ یو ٹرن ہے۔ انہوں نے ایسے ٹرن کئی بار لیے ہیں۔‘‘
راحیل شریف کا نیا منصب، ’اعزاز بھی، باعث تشویش بھی‘
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی قیادت میں قائم کثیر القومی انسداد دہشت گردی فوج کی سربراہی کریں گے۔ ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان کے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
’راحیل شریف 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ‘
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا ہے کہ راحیل شریف کو، جو گزشتہ برس نومبر تک پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے، 39 مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو سعودی عرب کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے متعدد خونریز تنازعات کے حل میں مدد کی جا سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’اعزاز بھی اور باعث تشویش بھی‘
پاکستان آرمی کےسابق سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والی بین الاقوامی انسداد دہشت گردی فوج کی کمان کرنا ایک اعزاز تو ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس طرح پاکستان کی اس کثیر الملکی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nietfeld
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششیں
جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے آرمی چیف کے طور پر دور میں ہی پاکستان کے افغان سرحد کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقوں میں اس ملٹری آپریشن کو بھرپور اور نتیجہ خیز حد تک آگے بڑھایا گیا تھا، جس کا مقصد تب کافی حد تک لاقانونیت کے شکار ان پاکستانی قبائلی علاقوں سے اسلام کے نام پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے والے شدت پسندوں کا خاتمہ کرنا تھا۔
تصویر: ISPR
اندازے درست ثابت ہوئے
نومبر 2015ء میں راحیل شریف ابھی پاکستانی فوج کے سربراہ کے عہدے سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ تب ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد کا کمانڈر بنا دیا جائے گا۔
تصویر: ISPR
باضابطہ اعلان جلد ممکن
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق راحیل شریف کو تین درجن سے زائد مسلم ممالک کے اس عسکری اتحاد کا فوجی کمانڈر بنانے کا فیصلہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد اگلے چند روز میں باضابطہ شکل اختیار کر لے گا۔
تصویر: ISPR
ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے جائیں گے
پاکستان شروع میں تو اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن پھر بعد میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق تو کر دی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اس اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے گی۔
تصویر: ISPR
پاکستان پر ممکنہ اثرات کیا ہوں گے؟
ناقدین کے مطابق اس بین الاقوامی عسکری اتحاد کی قیادت راحیل شریف کو سونپنے کے فیصلے کے پاکستان میں نظر آنے والے ممکنہ اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اتحاد متنازعہ ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ریاض اور تہران کے مابین واضح اور شدید کھچاؤ پایا جاتا ہے اور ایران اس عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/ISPR
راحیل شریف کی پاکستان میں مقبولیت
راحیل شریف پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایک کامیاب، پُرعزم اور قابل تحسین شخصیت کی حیثیت سے عوام اور پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کامیاب فوجی جنرل
راحیل شریف پاکستانی فوج کے 15ویں سربراہ تھے۔ گزشتہ برس انتیس نومبر کو ریٹائر ہونے والے راحیل شریف نے ستائیس نومبر سن دو ہزار تیرہ میں پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
تصویر: ISPR
عالمی سطح پر پذیرائی
راحیل شریف نے جب پاکستانی فوج کی قیادت سنبھالی تھی تو پاکستان میں امن و سلامتی کی صورتحال ابتر تھی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی اور سول حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھا۔ ان کوششوں پر انہیں عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ اس تصویر میں راحیل شریف جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈیر لاین کے ہمراہ نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nietfeld
10 تصاویر1 | 10
ن لیگ کا موقف
پرویز مشرف کو نواز شریف کے دور حکومت میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اب ن لیگ بھی اس مسئلے پر پی ٹی آئی پر تنقید کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہی مشرف کی ہے تو وہ اس سابق آمر مطلق کو کیوں نہیں بچائے گی، ''اس حکومت میں پرویز خٹک سے لے کر فروغ نسیم تک، جس نے الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا کہا تھا، سب مشرف کے آدمی ہیں۔ ہم تو پہلے ہی دن سے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے۔ کشمیر سے لے کر سی پیک اور اب مشرف کے مسئلے تک پر، اس حکومت کی پالیسی نے ظاہر کر دیا ہے کہ عمران خان کو ایک خاص مقصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے اس اقدام پر کوئی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ ہمیں پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ یہ کیا کریں گے۔‘‘
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بھی نالاں
اگرچہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس مسئلے پر حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تاہم کچھ رہنما اس حکومتی اقدام سے نالاں بھی ہیں اور اسے پارٹی کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ فیصلہ انتہائی غیر دانش مندانہ ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم پرویز مشرف اور عدالتوں کے معاملے میں شامل ہو جائیں۔ مشرف کو سزا ہوتی ہے، تو ہونے دیں۔ اگر ان کی جائیداد چھن جاتی ہے، ضبط ہو جاتی ہے، تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومتی اقدام سے ایک طرف سیاست دان ہم پر تنقید کریں گے تو دوسری طرف وکلاء بھی ہمارے خلا ف ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی شدید تنقید کرے گا۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس حکومتی اقدام کی وجہ سے ہم ہر طرف سے تنقید اور حملوں کی زد میں ہوں گے۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔