پر تشدد مظاہرے: جارجیا میں ایمرجنسی نافذ، نیشنل گارڈز طلب
30 مئی 2020
امریکی شہر مِنی ایپلس میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد ملک میں کئی روز سے جاری احتجاج شدت اختیار کر رہا ہے۔
اشتہار
مشتعل مظاہرین نے جمعے کو اٹلانٹا میں سی این این کے دفتر کے قریب عمارتوں میں توڑپھوڑ کی اور ایک گاڑی کو آگ لگادی۔ ہنگاموں کے باعث ریاست جارجیا کے گورنر نے ایمرجنسی نافذ کرکے نیشنل گارڈز کو طلب کرلیا ہے۔
ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منی ایپلس میں ایک پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی، جس کے بعد جڑواں شہر سینٹ پال سمیت علاقے میں پانچ سو نیم فوجی دستے تعینات کرکے وہاں جمعے اور ہفتے کی شب کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
مظاہرین نے دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی شدید احتجاج کیا، جس کے باعث حکام نے وائٹ ہاؤس کو جانے والے تمام راستوں کو عارضی طور پر بند کردیا۔
ریاست ایریزونا کے شہر فینکس اور ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں توڑپھوڑ کی۔ اس کے علاوہ ڈیلس، لاس اینجلس، ڈینور، لاس ویگاس اور نیو یارک سٹی میں بھی پولیس کی زیادتیوں کے خلاف جلوس نکالے گئے۔
امریکا میں سفید فام پولیس والوں کی طرف سے سیاہ فام امریکیوں پر تشدد اور دوران حراست ہلاکتیں ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔
غم و غصے کی تازہ لہر کا تعلق جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام شخص کی دوران حراست ہلاکت سے ہے۔ چھیالیس سالہ فلوئیڈ کو مِنی ایپلس میں چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لیا تھا۔ پچھلے ہفتے سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک پر پیٹ کے بل لیٹا ہوا ہے اور ایک پولیس والا اپنے گھٹنے سے اس کی گردن پر وزن ڈال رہا ہے۔ اس دوران فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں اور وہ پولیس سے التجا کرتے سنا جا سکتا ہے کہ "پلیز، مجھے سانس نہیں آرہی۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔" لیکن پولیس کارروائی کے چند منٹوں کے اندر اس نے وہیں سڑک پر دم توڑ دیا۔
حکام کے مطابق پولیس والوں کو شک تھا کہ فلوئیڈ کے پاس بیس ڈالر کا جعلی نوٹ تھا اور وہ اسے پولیس کی گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے جب اس نے سوار ہونے سے انکار کیا اور خوف کے مارے سڑک پر لیٹ گیا۔
ان چاروں پولیس والوں کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا ہے جبکہ فلوئیڈ کی ہلاکت میں ملوث پولیس والے کو دوران حراست قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تاہم مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ واقعے کے وقت وہاں موجود دیگر تین پولیس اہلکاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
صدر ٹرمپ نے مقامی حکام سے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ اس واقعے میں فلوئیڈ کے ساتھ کیا زیادتی ہوئی۔ تاہم انہوں نے مظاہرین کو خبردار کیا کہ اگر لوٹ مار کی گئی تو حکام گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔
احتجاج کی روایت کے مثالی نمونے
امریکا میں پولیس کے تشدد کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران خم ٹھونک کر پولیس کے سامنے کھڑی ہونے والی اس خاتون کی تصویر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ ایسی تصاویر کسی احتجاجی تحریک کی نمایاں علامت کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/R. Stothard
کئی گنا بڑی طاقت کے سامنے کھڑا ہونا
جولائی 2016ء: نیویارک کی اٹھائیس سالہ خاتون آئشیا ایونز تن کر کسی مجسمے کی طرح پوری طرح سے مسلح پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑی ہے۔ یہ تصویر ریاست لُوئیزیانا کے شہر بیتاں رُوژ میں ’سیاہ فام زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں‘ نامی تحریک کے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران اُتاری گئی۔ کیا یہ تصویر امریکا میں پولیس کے نسل پرستانہ تشدد کے خلاف تحریک کی علامت بن جائے گی؟
تصویر: Reuters/J. Bachman
سول نافرمانی
دسمبر 1955ء: سیاہ فام خاتون روزا پارکس کو بس کے ایک سفر کے دوران ایک سفید فام کے لیے اپنی نشست خالی نہ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا اور اُسے دَس ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ مارٹن لُوتھر کِنگ نے اس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے ایک شہری تحریک شروع کی اور بسوں کا بائیکاٹ کر دیا، جو ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا، یہاں تک کہ ملکی سپریم کورٹ نے رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
پھول والی بچی
اکتوبر 1967ء: واشنگٹن ڈی سی میں جنگِ ویت نام کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران سترہ سالہ جان روز کازمیر فوجیوں کے سامنے ایک گلِ داؤدی لیے کھڑی ہے۔ کئی سال بعد امن کی علمبردار اس خاتون نے کہا کہ اُس کی نظر میں وہ سارے محض نوجوان مرد تھے: ’’وہ میرے دوست یا بھائی بھی ہو سکتے تھے اور وہ خود بھی ساری صورتحال کے متاثرین میں سے تھے۔‘‘
تصویر: Marc Riboud/Magnum Photos
جنگ نہیں بلکہ محبت
مارچ 1969ء: جان لینن اور یوکو اونو ایک ہی بستر میں۔ تازہ تازہ شادی کرنے والے ایک جوڑے کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں لیکن امن کے علمبردار اس مشہور جوڑے نے ایمسٹرڈم کے نوبل ہوٹل میں پریس کو بُلا کر اپنا یہ بستر دکھایا اور یہ پیغام دیا کہ جنگ نہیں بلکہ محبت کرو۔ یہ پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا اور یہ تصویر ہِپّی تحریک کی علامت بن گئی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
گمنام ہیرو
جون 1989ء: ہاتھ میں ایک عام شاپنگ بیگ پکڑے یہ غیر مسلح شخص چینی ٹینکوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے۔ اس سے ایک ہی روز پہلے کمیونسٹ حکومت نے چینی دارالحکومت بیجنگ کے ابدی امن کے چوک میں تحریکِ جمہوریت کو ایک خونریز کارروائی کرتے ہوئے بری طرح سے کچل دیا تھا۔ اس منظر کو متعدد کیمرہ مینوں نے اپنے اپنے کیمروں میں محفوظ کر لیا تھا لیکن آج تک کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ یہ شخص کون تھا۔
تصویر: picture alliance/AP/J. Widener
ایک ویڈیو، جو عام ہو گئی
نومبر 2011ء: ایک ویڈیو قبضہ تحریک کی علامت بن گئی۔ جب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے طلبہ نے فیسوں میں اضافے کے خلاف ڈیوس کے مقام پر اپنا دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا تو ایک پولیس اہلکار نے مرچوں کا سپرے استعمال کیا۔ ان لمحات کی ویڈیو منظر عام پر آنے سے امریکی پولیس اہلکاروں کی طرف سے طاقت کے حد سے زیادہ استعمال پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images/W. Tilcock
سرخ لباس والی خاتون
مئی 2013ء: سرخ لباس میں ملبوس سائدہ سُنگور استنبول میں ہونے والے گیزی مظاہروں کی پہچان بن گئی تھی۔ اس خاتون نے ہزاروں دیگر افراد کے ہمراہ گیزی پارک میں ایک سرکاری تعمیراتی منصوبے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ یہ احتجاج حکمران اے کے پی جماعت کے خلاف چھ ماہ تک جاری رہنے والے اُن مظاہروں کا نقطہٴ آغاز بنا تھا، جن میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters
مذہب میں سکون
جنوری 2014ء: یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں ہونےوالے مظاہروں میں ایک طرف مغربی دنیا کے حامی جمہوریت پسند تھے اور دوسری طرف روس نواز حکومت کی پولیس کے مسلح اہلکار۔ درمیان میں آرتھوڈوکس چرچ کا ایک پادری اپنے اردگرد کے سارے ہنگامے سے بے نیاز اپنی عبادت میں مگن نظر آ رہا ہے اور دعا پڑھ رہا ہے۔