پشاور:ایف سی ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ،تین سکیورٹی اہلکار ہلاک
24 نومبر 2025
پشاور کے پولیس چیف میاں سعید نے کہا، ''گیٹ پر تعینات فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے تین اہلکار ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہوئے ہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ ایک حملہ آور نے دھماکہ کیا، جس میں وہ ہلاک ہو گیا، جبکہ دیگر دو حملہ آوروں کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
تاحال کسی بھی عسکریت پسند گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ کرتے ہوئے پشاور شہر میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی اور پھر کمپلیکس کے اندر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔
ڈپٹی کمانڈنٹ جاوید اقبال کے مطابق تین نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔
ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ''پہلے خودکش حملہ آور نے کانسٹیبلری کے مرکزی دروازے پر حملہ کیا اور دیگر حملہ آور احاطے میں داخل ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا، ''قانون نافذ کرنے والے اداروں، جن میں فوج اور پولیس شامل ہیں، نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور احتیاط کے ساتھ کارروائی کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں شبہ ہے کہ ہیڈ کوارٹر کے اندر کچھ دہشت گرد موجود ہیں۔‘‘
اس فورس کا ہیڈ کوارٹر پشاور کے گنجان آباد علاقے میں واقع ہے، جو صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟
علاقے کےایک رہائشی صفدر خان نے روئٹرز کو بتایا، ''سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ زخمی ہونے والے پانچ افراد، جن میں دو نیم فوجی اہلکار بھی شامل ہیں، اسپتال منتقل کر دیے گئے ہیں۔
یہ عمارت ایک مصروف شاہراہ پر واقع ہے، جہاں دونوں اطراف میں مختلف دکانیں، گاڑیوں کی ورک شاپس اور عمارت کے بالکل سامنے صدر بازار کا مشہور ڈینز ٹریڈ سنٹر واقع ہے۔
پشاور بی آر ٹی کی ترجمان صدف کامل کے مطابق سکیورٹی خدشات اور مسافروں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی راہداری پر بس سروس عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے، تاہم فیڈر روٹس پر بس سروس معمول کے مطابق جاری ہے۔
عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ
اس خطے میں سرگرم عسکریت پسندوں نے حالیہ ہفتوں میں حملوں میں اضافہ کیا ہے، جو گزشتہ ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی مہلک سرحدی جھڑپوں کے بعد دیکھنے میں آیا۔
یہ واقعہ ایک روز قبل خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اسپیشل برانچ کو ایک علیحدہ اور خصوصی پولیس یونٹ میں تبدیل کرنے کی منظوری کے بعد سامنے آیا۔ یہ فیصلہ صوبے میں عسکریت پسندانہ حملوں کی نئی لہر کے تناظر میں کیا گیا۔
حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، جن میں کئی سکیورٹی اہلکاروں کی اموات ہوئی ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان ان عسکریت پسندوں کو پناہ دیتے ہیں جو سرحد پار حملے کرتے ہیں، جب کہ کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین