پشاور بم دھماکہ: خود کش حملہ آور پولیس کی وردی میں تھا
2 فروری 2023خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ نے پشاور خود کش حملے میں سکیورٹی کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے پولیس کی وردی میں ملبوس ہونے کی وجہ سے خود کش حملہ آور کی تلاشی نہیں لی تھی۔ پیر کے روز کیے گئے اس حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، ''ڈیوٹی پر موجود عملے نے حملہ آور کی چیکنگ نہیں کی تھی کیونکہ وہ پولیس کی وردی میں تھا۔ یہ سکیورٹی انتظامات میں کوتاہی تھی۔‘‘
آئی جی انصاری کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے اس دہشت گرد کے سر کے حفاظتی کیمروں سے حاصل کردہ تصاویر کے ساتھ موازنے کے بعد پولیس کو اس بارے میں اب 'بہتر اندازہ‘ ہو گیا ہے کہ یہ خود کش بمبار کون تھا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے اس حملے کی منصوبہ بندی اکیلے نہیں کی تھی، ''اس کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک ہے۔‘‘
سکیورٹی حکام اس پہلو سے بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ شہر کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک میں پولیس لائن میں حفاظتی انتظامات کی اتنی بڑی خلاف ورزی کیسے ممکن ہوئی، وہ بھی اس وقت جب انٹیلیجنس اور انسداد دہشت گردی کے محکموں کے دفاتر بھی وہیں ہیں اور یہ جگہ علاقائی سیکرٹریٹ کے بھی بالکل قریب ہے۔
پشاور میں یہ خود کش بم حملہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستان کے کسی بھی شہر میں کیا گیا سب سے ہلاکت خیز اور 2021 ء میں کابل پر افغان طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے خطے میں خونریز حملے پھر شروع ہو جانے کے بعد سے اب تک کا بدترین حملہ ہے۔
پشاور سٹی پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بدھ کے روز اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حکام اس امکان کی بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا پولیس کمپاؤنڈ کے اندر موجود افراد میں سے بھی کسی نے اس حملے کو منظم کرنے میں عسکریت پسندوں کی مدد کی۔ اس اہلکار کا کہنا تھا، ''ہم نے پولیس لائن (ہیڈ کوارٹر) سے لوگوں کو حراست میں لیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دھماکہ خیز مواد اندر کیسے پہنچا اور یہ بھی دیکھا جا سکے کہ آیا خود پولیس کا اپنا کوئی اہلکار بھی اس حملے میں ملوث تھا۔‘‘
اس پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ کم از کم 23 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں سے کچھ کا تعلق افغانستان کی سرحد سے متصل سابقہ قبائلی علاقوں سے ہے۔
اس حملے نے ماضی میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار رہنے والے پشاور شہر کو ایک مرتبہ پھر لہولہان کر دیا ہے۔ پشاور ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کا ایک بڑا ہدف تھا۔ تاہم پھر ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا تھا اور وہاں سے انہوں نے افغانستان کا رخ کر لیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا اور طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کی قومی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں ناکامی کا الزام کابل پر بھی لگاتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی جانب سے کم یا درمیانی سطح کے مسلح حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری زیادہ تر ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ کی مقامی شاخ کی طرف سے بھی قبول کی جاتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث بننے والے حملے بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان نے خود کو پشاور کی ایک مسجد میں حالیہ دھماکے سے لاتعلق قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ اب عبادت گاہوں پر حملے نہیں کرتی۔ تاہم پولیس نے کہا ہے کہ حکام اس پہلو سے بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا اس حملے میں کوئی ایسے عناصر بھی ملوث ہیں، جو ماضی میں ٹی ٹی پی سے منسلک رہے ہوں۔
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)