پشاور: ’دکانداروں کا ملالہ کی کتاب فروخت کرنے سے انکار‘
21 اکتوبر 2013اس دھمکی کو مقامی دکاندار نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پشاور کی مارکیٹ میں کوئی بھی بک سیلر یہ کتاب دکان میں رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر دکانداروں نے ”آئی ایم ملالہ“ نامی کتاب کی خریداری کے دیے ہوئے آرڈر منسوخ کر دیے ہیں۔ ان دکانداروں کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں نے ملالہ کی کتاب کے بارے میں پوچھا ہے لیکن انہوں نے گاہکوں کو یہ کتاب کہیں اور سےخریدنے کا کہا ہے۔
دکاندار تو اس بارے میں بات بھی کرنا نہیں چاہتے لیکن ایک دکان میں ملالہ کی کتاب خریدنے کی نیت سے آنیوالے کامران خٹک کا کہنا تھا، ’’میں یہاں ملالہ یوسفزئی کی کتاب خریدنے آیا ہوں لیکن یہ اس بڑی دکان پر بھی نہیں ہے۔ ویسے ایک سیلز مین نے بتایا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی یہ کتاب اسلام آباد سے مل سکتی ہے۔ مجھے اندازہ تھا کیونکہ سُنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنے والوں نے دکانداروں کو اُس کی کتاب فروخت کرنے سے بھی منع کیا ہے۔‘‘
کاروباری طبقوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ شہر میں دہشت گردی کے واقعات روکنا اب شاید حکومت کے بس کی بات نہیں۔ طالبان کی جانب سے جن اقدامات کی مخالفت کی جاتی ہے، وہ اب شہر میں کم ہوتے جارہے ہیں۔
طالبان کو شادی بیاہ کے موقع پر پختون روایات کے مطابق موسیقی کے پروگرامز کا انعقاد بھی گوارہ نہیں، اس لئے اکثر علاقوں میں لوگوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ایک عرصے سے خیبر پختونخوا میں موسیقی کے پروگرامز کے انعقاد کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ کئی گلوکار، اداکار اور ثقافت سے وابستہ لوگ یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ کئی نے اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح سی ڈی سینٹرز اور انٹرنیٹ کیفے بھی ان دھمکیوں کی زد میں رہے۔
تجزیہ نگار اورکلچر جرنلسٹس فور م کے چیئرمین احتشام الحق نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ان حالات کی وجہ سے رہے سہے فنکار، سکالر، تاجر اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگ بھی لاہور، کراچی یا بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں کیونکہ یہاں ان کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔ انہیں مختلف عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور اگر وہ ان حالات میں بھی یہاں کام کررہے ہیں تو کسی جہاد سے کم نہیں۔‘‘
احتشام الحق کا مزید کہنا تھا کہ سی ڈی شاپس مالکان کو باقاعدہ دھمکی دیے کر ایک لسٹ دی گئی کہ ان اداکاروں اور فنکاروں سے دور رہیں۔ دیگر کی طرح فن و ثقافت سے وابستہ درجنوں لوگ بھی یہاں سے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’جب حکومت اپنے وزراء، ارکان اسمبلی اور اعلیٰ افسران کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی تو ان لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کیسے کرسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ لوگوں کے لئے ایک ایسا فنڈ قائم کرے، جس سے ان کی مالی مدد کی جاسکے۔‘‘
ملالہ کی کتاب فروخت کرنے والے دکانداروں کو سنگین نتائج کی دھمکی دینے سے قبل انٹرنٹ کیفے اور سی ڈی شاپس مالکان کو یہ کاروبار ختم کرنے کی دھمکیا ں دی گئیں۔ ان دھمکیوں کو نظر انداز کرنے والے دکانوں اور نیٹ کیفیز میں دھماکے کروا کے انہیں شدید مالی نقصان پہنچایا گیا، جس کے بعد دیگر نے اس کاروبار سے الگ ہونے میں عافیت جانی۔