1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: سکھ کمیونٹی کا ’احترامِ رمضان‘

فریداللہ خان، پشاور
25 مئی 2018

صوبہ خیبر پختونخوا کی سکھ برادری نے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کی نئی مثال قائم کر دی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہ کمیونٹی رمضان میں نہ صرف کھلے عام کھانے پینے سے گریز کر رہی ہے بلکہ روزہ داروں کے لیے افطاری کا اہتمام بھی کر رہی ہے۔

Pakistan Ramadan Iftar Sikh Gemeinde in Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں سکھ برادری اس برس بھی پشاور کے مختلف علاقوں میں افطاری کے لیے باقاعدہ کیمپ لگا رہی ہے۔ سب سے زیادہ رش لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لگائے گئے ایک کیمپ میں دکھنے میں آ رہا ہے۔ اس رش کی وجہ یہ بھی ہے کہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ علاج کی غرض سے اس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔

سکھ برداری رمضان میں بالخصوص ان تیمار داروں کی خدمت بھی کر رہی ہے۔ ان کے لیے افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس افطار کیمپ میں البتہ مریضوں کے رشتہ داروں کے علاوہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بعض ملازمین ، بازار میں کام کی غرض سے آنے والے مسافر اور غریب  افراد بھی افطاری کر سکتے ہیں۔

پشاور: رمضان میں سکھ برادری کی جانب سے افطاری کے انتظامات

پشاور میں گردوارہ تو کھل گیا لیکن سکیورٹی کا کیا ہو گا؟

خیبر پختونخوا میں اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کا منصوبہ

افطاری کے لوازمات

افطاری میں شربت،کھجور ،پکوڑے، سموسے اور پھل جبکہ بعد میں کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ افطاری کے انتظامات کے موقع پر موجود مقامی فلاحی تنظیم سے وابستہ گور پال سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر افطاری کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اس مہینے ہم خود بھی کھلے عام کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘

سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر اسے مسلمانوں کے ہاتھوں سے پکوایا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی شک کی گنجائش باقی نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ نیک جذبے کے تحت کیا جاتا ہے تاکہ  مسافروں اور بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے۔

مسلمان بھی سکھوں کی جانب سے اس جذبے کی تعریف کرتے ہیں۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں سینکڑوں سکھ خاندان عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں، جو آپس میں بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں۔

پشاور میں سکھ بچوں کے لیے قائم کردہ اسکول

04:12

This browser does not support the video element.

سماجی ذمہ داری

سکھ برادری کے فلاحی تنظیموں سے وابستہ دانیال اور جوہیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ افطار کیمپوں کا اہتمام خالصتا ایک سماجی کام ہے، جس کے لیے کسی سے کچھ نہیں لیا جاتا بلکہ خود ہی سارا خرچہ برداشت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزے رکھتے ہیں۔

پشاور کی سکھ کمیونٹی کی طرف سے عید کے موقع پر بھی بیواؤں اور یتیموں میں خ‍صوصی پیکجز تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سنگھ کا کہنا ہےکہ روزہ داروں کی خدمت کے لیے وہ خود کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی خدمت کرکے  انہیں سکو ن ملتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پوری دنیا میں مذہبی تہواروں پر اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو رضا کارانہ طور پر کم کیا جاتا ہے جبکہ حکومتیں سبسڈی دیتی ہیں، اس لیے حکومت پاکستان کو بھی رمضان  اور عیدین سمیت تمام مذاہب کے تہواروں پر عوام کی خوشیوں میں شریک  ہونے کے لیے خصوصی پیکجز  دیے جانا چاہییں۔

پشاور میں کئی مقامات پر مخیر حضرات کی جانب سے افطاری کے لیے انتظامات دیکھنے میں آتے ہیں تاہم سکھ برادری کی جانب سے لگائے جانے والے کیمپ میں روزانہ سو سے ایک سو بیس افراد تک افطاری کا انتظام کیا جاتا ہے۔

غریب لوگوں کے لیے سہولت

جنوبی ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے حمید اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’والدہ کو علاج کے لیے یہاں لائے ہیں۔ اخراجات بھی زیادہ ہیں اور علاج بھی مہنگا ہے۔ یہاں کافی لوگ ایسے ہیں، جو اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ بازار میں کھانا بھی مہنگا ہے اور ایسے میں اگر کسی کی جانب سے افطاری مل جائے تو ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک سہولت بن جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا  ہے کہ یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے کہ ہسپتالوں میں کھانا وغیرہ کے لیے انتظامات کرے لیکن اگر کوئی ذاتی طور پر یہ نیک کام کرے تو دوسروں کو بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ یوں مالی مشکل کا سامنا کرنے والے لوگوں کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

سکھ برادری کے لوگ اس افطار کیمپ میں روزہ داروں کی خدمت کے لیے خود کھڑے ہوتے ہیں اور افطاری کے وقت روزہ داروں کو پانی اور کھانا لاکر دیتے ہیں جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں کاروبار سے وابستہ سکھوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان کے دوران اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں منافع نہیں کمایا جاتا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں