پشاور میں غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں دو بیٹیوں کا قتل
فرزانہ علی، پشاور
24 ستمبر 2017
پشاور میں ایک باپ نے اپنی دو بیٹیوں کو مبینہ طور پر فائرنگ کر کے غیرت کے نام پر ہلاک کر دیا ہے۔ اعداد وشمار کی رو سے پاکستان میں سالانہ ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ خاتون صحافی فرزانہ علی کا تبصرہ۔
اشتہار
حوالات کی سلاخوں کے پار سر جھکائے آہستہ آہستہ بولتے عبدالغنی کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا، ’’مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں اپنی غیرت کے ہاتھوں مجبور تھا۔‘‘ جب میں نے غنی سے سوال کیا کہ کیسی غیرت؟ تو بولا ،’’ ان دونوں کے موبائل فونوں پر انجان مردوں سے رابطے تھے اور وہ اکثر گھر سے بھی غائب ہو جاتیں تھیں ۔لوگ طعنے دیتے اور طرح طرح کی باتیں کرتے تھے جو مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ ایک دن ایک بیٹی نورین تین روز بعد گھر لوٹی اور اگلے روز صبح نورین اور دوسری بیٹی شمیم دونوں دوبارہ گھر سے نکلنے لگیں تو میں نے فائرنگ کر کے دونوں کو ہلاک کر دیا۔‘‘
میر ااگلا سوال اس کے پہلے جملے سے متعلق تھا،’’جب آپ کہہ رہے ہیں کہ دونوں کے غلط کاموں میں ملوث ہونے کی وجہ سے آپ نے ان کو قتل کیا تو پھر اب شرمندگی کیسی؟‘‘
اس پر عبدالغنی نے جواب دیا،’’ بس اب ٹھیک نہیں لگ رہا ہے کیونکہ میرے اس ایک جذباتی اقدام سے میرا گھر تباہ ہو گیا ہے۔میں جیل میں ہوں، بچیاں مر گئیں اور علاقے والوں نے الگ ہمارا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔‘‘
یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ ایک مجرم غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے بعد کی شرمندگی سے مجھے آگاہ کر رہا تھا بلکہ ایسے کئی کیس مجھے زبانی یاد ہیں کہ جرم کے بعد کی شرمند گی اور پھر غیرت کے نام پرقتل سے متعلق بنائے گئے قوانین میں تاحال موجود سقم کی وجہ قاتل آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ہم خیبر پختونخوا میں صرف گذشتہ نو ماہ کی ہی بات کر لیں تو ہمیں غیرت کے نام پر قتل کے 24 رجسٹرڈ کیسز نظر آتے ہیں ۔جبکہ 2016 میں یہ تعداد 44 بتائی گئی تھی۔ تاہم کسی بھی کیس میں اب تک مجرم کو سزا نہیں ملی۔ کچھ اب تک فرار ہیں جبکہ کچھ کا جرم قصاص اور دِیت کی آڑ میں راضی نامے میں چھپایا جا چکا ہے۔ کچھ گرفتار بھی ہوئے لیکن سزا تاحال نہیں ملی۔ وہ چاہے حنا شہنواز ہو یا نغمانہ، نوشین ہو یا الماس بی بی، ان تمام خواتین کا قتل غیرت کی تشریح میں ڈھل کر عورت کو گناہ گار اور مرد کو غیرت مند ثابت کر تے ہوئے خاموش ہو چکا ہے۔
یہی مجھے شمیم اور نورین کے والد سے مل کر محسوس ہوا۔ ایف آئی آر کروانے والا بھائی بھی قتل کے مقصد کو بہنوں کے مشکوک عمل کا شاخسانہ درج کروائے گا تو نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ اس سے قبل جب حنا شہنواز کا قتل ہوا اور میں نے اسکے بہنوئی سے بات کرنا چاہی تو اُس نے صاف کہہ دیا،’’ بی بی یہ دو کزنز کا آپس کا معاملہ ہے میں کسی کی دشمنی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘ اب اہم سوال یہ ہے کہ آخر غیرت کے نام پر قتل کے لیے بنائے گئے قوانین کے باوجود اس کی روک تھام ممکن کیوں نہیں ہو پا رہی۔؟ اگر ہم پشاور ، نوشہرہ، سوات اور کوہستان کی بات کریں تو ہر روز اخبار ان علاقوں میں خواتین کے غیرت کےنام پر قتل کی داستانیں سناتے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں بھی قاتل کے لئے ہمدردی اور مقتول کے لئے نفرت بارہا محسوس ہوئی۔
جب تک قاتل کے عمل کو قانونی ،مذہبی یا روایاتی معافی سے الگ نہیں کیا جاتا غیرت یونہی خواتین کے قتل کا آلہ کار بنتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالغنی کی آواز اور اس کے بیٹے امجد کی کٹوائی گئی ایف آئی آر، دونوں میں مجھے قانونی سقم کا اعتماد چھلکتا نظر آیا۔ خاص طور پر تھانے کے محرر کے یہ الفاظ کہ ’منشیات کے استعمال کی وجہ سے اسکا دماغ خراب ہو گیا تھا اب بچارا اپنے کیے پر شرمندہ ہے‘۔
دو انسانی جانوں کا بہیمانہ قتل اور یہ شرمندگی۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔