پشاور میں ہزاروں افغان مہاجر بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع
فریداللہ خان، پشاور
21 جنوری 2022
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد کی بندش کے نتیجے میں پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے گھرانوں کے ہزاروں طلبا و طالبات کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔
اشتہار
بعض عالمی امدادی تنظیموں کی جانب سے امداد بند ہونے کے بعد ایسے تعلیمی ادارے چلانے کے لیے کئی نجی اسکولوں کی انتظامیہ نے بچوں سے ماہانہ فیس طلب کرنا شروع کر دی تھی، جس کے بعد زیادہ تر والدین نے اپنے بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا۔
ایسے تقریباﹰ سبھی افغان اسکول کرائے کے مکانوں میں قائم کیے گئے ہیں اور انہیں ماہانہ کرائے اور اپنے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں کے علاوہ بجلی اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے بھی مجموعی طور پر خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بچوں سے فیس طلب کی گئی تو بہت سے طلبا و طالبات کے والدین نے اپنے بچوں کو مجبوراﹰ اسکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے اور ایسے افغان شہریوں کی آمدنی کورونا وائرس کی وبا سے بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں بچوں کی فیسوں اور کتابوں کا خرچہ پورا کرنا مشکل ہوگیا، تو مجبور والدین نے اپنے بچوں کو گھر بٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پامیر ایجوکیشن سسٹم کے سربراہ ڈاکٹر نور سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''لڑکیوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح 55 فیصد جبکہ لڑکوں میں یہ شرح چالیس فیصد ہے۔ پہلے کئی امدادی ادارے ان اسکولوں کو سپورٹ کرتے تھے۔ ایک جانب کورونا وائرس کی وجہ سے اور دوسری جانب افغانستان کے حالات کی وجہ سے بھی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔ بعض عالمی امدادی تنظیموں نے بھی ایسے تعلیمی اداروں کی مدد کرنا بند کر دی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نور کا مزید کہنا تھا، ''جب بعض اسکول مالکان نے بچوں کو فیس ادا کرنے کے لیے کہا، تو ان کے والدین نے بچوں کا اسکول آنا ہی بند کر دیا۔ وہ تو اپنے گھروں کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افغان مہاجرین نے ان بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا دیا۔ کچھ بچے اب سڑکوں سے کچرا جمع کرتے ہیں تو کچھ بازاروں میں چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ اب ایسے بچے شام کو سو دو سو روپے گھر لاتے ہیں۔ جب ان بچوں کے ہاتھ پیسے آ گئے، تو انہیں اسکولوں میں واپس لانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘
افغان مہاجرین کے نجی اسکولوں میں طلبا و طالبات کی تعداد دس ہزار سے زائد
اعداد و شمار کے مطابق پشاور اور اس کے نواحی علاقوں میں افغان مہاجرین کے 37 نجی اسکولوں میں دس ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا مہاجرین کے لیے امدای ادارہ پاکستان بھر میں مہاجر بستیوں میں قائم بہت سے اسکولوں کے لیے امداد فراہم کر رہا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کی تینتالیس بستیوں میں قائم 103 اسکولوں میں 55 پچپن ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ان اسکولوں میں پرائمری اور سیکنڈری کی سطح کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکول تو گھروں میں بھی قائم ہیں۔‘‘
حکومتی سطح پر افغان مہاجرین کے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہ سرکاری اسکولوں میں داخلہ بھی لے سکتے ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی، میڈیکل کالجز اور انجینیئرنگ یونیورسٹی پشاور میں تو حال ہی میں 200 سے زائد افغان طلبا کو وظیفوں پر داخلہ بھی دیا گیا۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔