1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: شیعہ مسجد پر خود کش و بم حملے، ڈیڑھ درجن سے زائد ہلاک

عابد حسین13 فروری 2015

آج جمعے کے روز پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع امامیہ بارگاہ اور مسجد پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 20 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔

تصویر: Reuters

حیات آباد کی امامیہ بارگاہ اور مسجد پر حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کر لی ہے۔ امام بارگاہ اور مسجد کے سارے علاقے کو پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے اپنے گھیرے میں لے کر بقیہ علاقے سے علیحدہ کر دیا ہے۔ فورنزک ماہرین شواہد اکھٹے کرنے میں مصروف ہیں۔ امام بارگاہ کے قریبی ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کم از کم انیس نعشیں پہنچا دی گئی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق جمعے کی نمار کے ختم ہونے کے فوری بعد یہ حملہ کیا گیا۔ اِس حملے میں دستی بموں کے ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کی گئی۔

ایک عینی شاہد شاہد حسین نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ نماز ختم ہونے کے بعد فوجی وردیوں میں ملبوس پانچ چھ افراد نے مسجد میں داخل ہو کر بیٹھے ہوئے نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ لوگ باہر کی سکیورٹی کو توڑ کر اندر پہنچے تھے۔ سکیورٹی ذرائع کا بھی کہنا یہ ہے کہ حملہ آور دستی بم سے بیرونی سکیورٹی کو توڑ کر مسجد میں داخل ہوئے۔ شاہد حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ فائرنگ کے بعد مسجد میں چیخ و پکار اور افرا تفری مچ گئی۔ مقامی ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق اِس حملے میں ایک خود کُش بمبار بھی شریک تھا۔

دو ہفتے قبل پاکستانی صوبے سندھ کے شہر شکار پور کی ایک شیعہ مسجد پر کیے گئے حملے میں 61 افراد کی ہلاکت ہوئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ایک ڈاکٹر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ شیعہ جامع مسجد پر حملے کے مقام سے تریسٹھ سے زائد زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔ پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر میاں سعید نے بھی ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ میاں سعید کے مطابق ملبے میں سے زخمیوں کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ سکیورٹی حکام کے مطابق شیعہ مسجد میں ہونے والا دھماکا خاصا زوردار تھا۔ طبی ذرائع کے مطابق ہسپتال لائے گئے کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور اِس باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے دہشت گردانہ حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ قبائلی پٹی میں جاری فوجی آپریشن کا ردِ عمل ہے۔ قبائلی علاقے میں پاکستانی فوج نے گزشتہ برس جون سے فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ پشاور ہی میں تقریباً تین ماہ قبل آرمی پبلک اسکول پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں ڈیڑھ سو افراد کی ہلاکت ہوئی تھی، جن میں اسکول کے 132 بچے بھی شامل تھے۔ اب تقریباً دو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر پشاور کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دو ہفتے قبل پاکستانی صوبے سندھ کے وسطی شہر شکار پور کی ایک شیعہ مسجد پر کیے گئے حملے میں 61 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں