1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور کے ایک مدرسے میں بم دھماکا، سات ہلاک

27 اکتوبر 2020

پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک مدرسے میں آج ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم سات بچے ہلاک اور 70 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔

Pakistan Anschlag auf eine Religionsschule in Peschawar
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

بم دھماکے کا یہ واقعہ آج منگل 27 اکتوبر کو پشاور کے نواح میں واقع جامعہ زبیریہ مدرسہ میں اس وقت پیش آیا جب وہاں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے درس وتدریس کا سلسلہ جاری تھا۔

ایک پولیس افسر وقار عظیم نے بتایا کہ ابتدائی تفیش سے پتہ چلا ہے کہ کسی شخص نے ایک تھیلا مدرسے میں رکھا جس کے فوراً بعد ہی وہاں دھماکا ہوگیا۔  دھماکے میں دو اساتذہ کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔

سرکاری اہلکاروں نے بتایا کہ بہت سے زخمیوں کی حالت نازک ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

دھماکے کے بعد پولیس، ریسکیو حکام اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔

تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

پاکستانی میڈیا کے مطابق زخمیوں کا علاج مختلف ہسپتالوں میں کیا جارہا ہے۔  لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اب تک ہسپتال میں پانچ لاشیں اور 70 زخمی لائے گئے ہیں۔  انہوں نے بتایا کہ جو لاشیں اور زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں ان میں بیشتر کے جسم جلے ہوئے ہیں اور جسم میں چھرے بھی موجود ہیں۔

خیال رہے کہ افغانستان کی سرحد سے ملحق صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں میں انتہا پسندانہ حملے ہوتے رہے ہیں لیکن مساجد اور مدارس پر ہونے والے مسلکی حملوں کی وجہ سے بھی بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

گزشتہ ماہ بھی خیبرپختونخوا میں دھماکے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔  29 ستمبر کو خیبرپختونخوا میں 24 گھنٹوں کے اندر دو دھماکے ہوئے تھے جس میں مجموعی طور پر نوافراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

دو روز قبل ہی ملک کےجنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

 ج ا /  ا ب ا  (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں